الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْ نَبَاتٍ شَتَّى ﴿53﴾
‏ [جالندھری]‏ وہ (وہی تو ہے) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے جاری کئے اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے انواع واقسام کی مختلف روئیدگیاں پیدا کیں ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ رب العزت کا تعارف ۔
موسیٰ علیہ السلام فرعون کے سوال کے جواب میں اوصاف الٰہی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسی اللہ نے زمین کو لوگوں کے لئے فرش بنایا ہے۔ مھدا کی دوسری قرأت مھادا ہے۔ زمین کو اللہ تعالٰی نے بطور فرش کے بنا دیا ہے کہ تم اس پر قرار کئے ہوئے ہو، اسی پر سوتے بیٹھتے رہتے سہتے ہو۔ اس نے زمین میں تمہارے چلنے پھرنے اور سفر کرنے کے لئے راہیں بنا دی ہیں تاکہ تم راستہ نہ بھولو اور منزل مقصود تک بہ آسانی پہنچ سکو۔ وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کی پیداوار اگاتا ہے۔ کھیتیاں باغات میوے قسم قسم کے ذائقے دار کہ تم خود کھالو اور اپنے جانوروں کو چارہ بھی دو۔ تمہارا کھانا اور میوے تمہارے جانوروں کا چارا خشک اور تر سب اسی سے اللہ تعالٰی پیدا کرتا ہے۔ جن کی عقلیں صحیح سالم ہیں ان کے لئے تو قدرت کی یہ تمام نشانیاں دلیل ہیں۔ اللہ کی الوہیت، اس کی وحدانیت اور اس کے وجود پر۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا فرمایا ہے۔ تمہاری ابتدا اسی سے ہے۔ اس لئے کہ تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اسی سے ہوئی ہے۔ اسی میں تمہیں پھر لوٹنا ہے، مر کر اسی میں دفن ہونا ہے، اسی سے پھر قیامت کے دن کھڑے کئے جاؤ گے۔ ہماری پکار پر ہماری تعریفیں کرتے ہوئے اٹھو گے اور یقین کر لو گے کہ تم بہت ہی تھوڑی دیر رہے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اسی زمین پر تمہاری زندگی گزرے گی مر کر بھی اسی میں جاؤ گے پھر اسی میں سے نکالے جاؤ گے۔ سنن کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کے دفن کے بعد اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے پہلی بار فرمایا (منھا خلقنکم) دوسری لپ ڈالتے ہوئے فرمایا (وفیھا نعید کم) تیسری بار فرمایا (ومنھا نخرجکم تارۃ اخری)۔ الغرض فرعون کے سامنے دلیلیں آ چکیں، اس نے معجزے اور نشان دیکھ لئے لیکن سب کا انکار اور تکذیب کرتا رہا، کفر سرکشی ضد اور تکبر سے باز نہ آیا۔ جیسے فرمان ہے یعنی باوجود یہ کہ ان کے دلوں میں یقین ہو چکا تھا لیکن تاہم ازراہ ظلم و زیادتی انکار سے باز نہ آئے۔