قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا ﴿92﴾
‏ [جالندھری]‏ (پھر موسیٰ نے ہارون سے کہا) کہ ہارون جب تم نے ان کو دیکھا تھا کہ گمراہ ہوگئے ہیں تو تم کو کس چیز نے روکا؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
کوہ طور سے واپسی اور بنی اسرائیل کی حرکت پہ غصہ ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت غصے اور پورے غم میں لوٹے تھے۔ تختیاں زمین پر ماریں اور اپنے بھائی ہارون کی طرف غصے سے بڑھ گئے اور ان کے سر کے بال تھام کر اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ اعراف کی تفیسر میں گزر چکا ہے اور وہیں وہ حدیث بھی بیان ہوچکی ہے کہ سننا دیکھنے کے مطابق نہیں۔ آپ نے اپنے بھائی اور اپنے جانشین کو ملامت کرنی شروع کی کہ اس بت پرستی کے شروع ہوتے ہی تو نے مجھے خبر کیوں نہ کی؟ کیا جو کچھ میں تجھے کہہ گیا تھا تو بھی اس کا مخالف بن بیٹھا؟ میں توصاف کہہ گیا تھا کہ میری قوم میں میری جانشینی کر اصلاح کے درپے رہ اور مفسدوں کی نہ مان۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اے میرے ماں جائے بھائی۔ یہ صرف اس لئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زیادہ رحم اور محبت آئے ورنہ باپ الگ الگ نہ تھے باپ بھی ایک ہی تھے دونوں سگے بھائی تھے۔ آپ عذر پیش کرتے ہیں کہ جی میں تو میرے بھی آئی تھی کہ آپ کے پاس آ کر آپ کو اس کی خبر کروں لیکن پھرخیال آیا کہ انہیں تنہا چھوڑنامناسب نہیں کہیں آپ مجھ پر نہ بگڑ بیٹھیں کہ انہیں تنہا کیوں چھوڑ دیا اور اولاد یعقوب میں یہ جدائی کیوں ڈال دی؟ اور جو میں کہہ گیا تھا اس کی نگہبانی کیوں نہ کی؟ بات یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام میں جہاں اطاعت کا پورا مادہ تھا وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عزت بھی بہت کرتے تھے اور ان کا بہت ہی لحاظ رکھتے تھے۔