أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِنَ الْأَرْضِ هُمْ يُنْشِرُونَ ﴿21﴾
‏ [جالندھری]‏ بھلا لوگوں نے جو زمین کی چیزوں سے (بعض کو) معبود بنا لیا ہے (تو کیا) وہ انکو (مرنے کے بعد) اٹھا کھڑا کریں گے؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
سب تہمتوں سے بلند اللہ جل شانہ
شرک کی تردید ہو رہی ہے کہ جن جن کو تم اللہ کے سوا پوج رہے ہو ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو مردوں کو جلاسکے۔ کسی میں یا سب میں مل کر بھی یہ قدرت نہیں پھر انہیں اس قدرت والے کے برابر ماننا یا ان کی بھی عبادت کرنا کس قدر ناانصافی ہے؟ پھر فرماتا ہے سنو اگر مان لیا جائے کہ فی الواقع بہت سے الہٰ ہیں تولازم آئے گا کہ زمین وآسمان تباہ وبرباد ہو جائیں جیسے فرمان ہے آیت (مااتخذ اللہ من ولد الخ)، اللہ کی اولاد نہیں، نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوقات کو لئے پھرتا اور ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشیش کرتا اللہ تعالٰی ان کے بیان کردہ اوصاف سے مبرا اور منزہ ہے۔ یہاں فرمایا اللہ تعالٰی مالک عرش ان کے کہے ہوئے ردی اوصاف سے یعنی لڑکے لڑکیوں سے پاک ہے۔ اسی طرح شریک اور ساجھی سے، مثل اور ساتھی سے بھی بلند وبالا ہے۔ ان کی یہ سب تہمتیں ہیں جن سے اللہ کی ذات برتر ہے ۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ علی الاطلاق شہنشاہ حقیقی ہے، اس پر کوئی حاکم نہیں۔ سب اس کے غلبے اور قہر تلے ہیں۔ نہ تو اس کے حکم کا کوئی تعاقب کرسکے نہ اس کے فرمان کو کوئی ٹال سکے ۔ اس کی کبریائی اور عظمت جلال اور حکومت علم اور حکمت لطف اور رحمت بےپایاں ہے۔ کسی کو اس کے آگے دم مارنے کی مجال نہیں۔ سب پست اور عاجز ہیں لاچار اور بےبس ہیں۔ کوئی نہیں جو چوں کرے کوئی نہیں جو اس کے سامنے بول سکے کوئی نہیں جسے چوں چرا کا اختیار ہو جو اس کا پوچھ سکے کہ یہ کام کیوں کیا ایسا کیوں ہوا؟ وہ چونکہ تمام مخلوق کا خالق ہے سب کا مالک ہے اسے اختیار ہے جس سے جو چاہے سوال کرے کہ ہر ایک کے اعمال کی وہ باز پرس کرے گا۔ جیسے فرمان ہے آیت (فوربک لنسئلنہم اجمعین الخ)، تیرے رب کی قسم ہم ان سب سے سوال کریں گے ہر اس فعل سے جو انہوں نے کیا۔ وہی ہے کہ جو اس کی پناہ میں آگیا سب شر سے بچ گیا اور کوئی نہیں جو اس کے مجرم کو پناہ دے سکے۔