وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ ﴿26﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کہتے ہیں کہ خدا بیٹا رکھتا ہے وہ پاک ہے (اسکے نہ بیٹا ہے نہ بیٹی) بلکہ (جن کو یہ لوگ اس کے بیٹے اور بیٹیاں سمجھتے ہیں) وہ اس کے عزت والے بندے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
خشیت الٰہی 
کفار مکہ کا خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں۔ ان کے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے، فرشتے اللہ تعالٰی کے بزرگ بندے ہیں، بڑے بڑائیوں والے ہیں اور ذی عزت ہیں قولاً اور فعلاً ہروقت اطاعت الہٰی میں مشغول ہیں۔ نہ تو کسی امر میں اس سے آگے بڑھیں ، نہ کسی بات میں اس کے فرمان کا خلاف کریں بلکہ جو وہ فرمائے دوڑ کر اس کی بجا آوری کرتے ہیں۔ اللہ کے علم میں گھرے ہوئے ہیں اس پر کوئی بات پوشیدہ نہیں آکے پیچھے دائیں بائیں کا اسے علم ہے ذرے ذرے کا وہ دانا ہے۔ یہ پاک فرشتے بھی اتنی مجال نہیں رکھتے کہ اللہ کے کسی مجرم کی اللہ کے سامنے اس کی مرضی کے خلاف سفارش کے لئے لب ہلا سکیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ) وہ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش اس کے پاس لے جاسکے ؟ اور آیت میں ہے (ولا تنفع الشفاعتہ عندہ الا لمن اذن لہ) ۔ یعنی اس کے پاس کسی کی شفاعت اس کی اپنی اجازت کے بغیر چل نہیں سکتی۔ اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔ فرشتے اور اللہ کے مقرب بندے کل کے کل خشیت الہٰی سے، ہیبت رب سے لرزاں وترساں رہا کرتے ہیں۔ ان میں سے جو بھی خدائی کا دعوی کرے ہم اسے جہنم واصل کردیں ظالموں سے ہم ضرور انتقام لے لیا کرتے ہیں۔ یہ بات بطور شرط ہے اور شرط کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وقوع بھی ہو۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ خاص بندگان اللہ میں سے کوئی ایسا ناپاک دعویٰ کرے اور ایسی سخت سزا بھگتے۔ اسی طرح کی آیت (قل ان کان للرحمن ولدا) اور (لئن اشرکت الخ)، ہے۔ پس نہ تو رحمن کی اولاد نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرک ممکن۔