وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ ﴿34﴾
‏ [جالندھری]‏ اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا بھلا اگر تم مر جاؤ تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
خضرعلیہ السلام مرچکے ہیں
جتنے لوگ ہوئے سب کو ہی موت ایک روز ختم کرنے والی ہے۔ تمام روئے زمین کے لوگ موت سے ملنے والے ہیں۔ ہاں رب کی جلال واکرام والی ذات ہی ہمیشہ اور لازوال ہے۔ اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام مرگئے ۔ یہ غلط ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوں کیونکہ وہ بھی انسان ہی تھے ولی ہوں یانبی ہوں یا رسول ہوں تھے تو انسان ہی ۔ ان کفار کی یہ آرزو کتنی ناپاک ہے کہ تم مرجاؤ؟ تو کیا یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟ ایسا تو محض ناممکن دنیا میں تو چل چلاؤ لگ رہا ہے۔ کسی کو بجز ذات باری کے دوام نہیں۔ کوئی آگے ہے کوئی پیچھے ۔ پھر فرمایا موت کا ذائقہ ہر ایک کوچکھنا پڑے گا۔ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ میری موت کے آرزو مند ہیں تو کیا اس کے بارے میں میں ہی اکیلا ہوں؟ یہ وہ ذائقہ نہیں جو کسی کو چھوڑ دے۔ پھر فرماتا ہے بھلائی برائی سے، سکھ دکھ سے، مٹھاس کڑواہٹ سے، کشادگی تنگی سے۔ ہم اپنے بندوں کو آزمالیتے ہیں تاکہ شکر گزار اور ناشکرا صابر اور نا امید کھل جائے۔ صحت وبیماری ، تونگری ، فقیری، سختی، نرمی،حلال،حرام، ہدایت، گمراہی، اطاعت، معصیت یہ سب آزمائشیں ہیں، اس میں بھلے برے کھل جاتے ہیں ۔ تمہارا سب کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے اس وقت جوجیسا تھا کھل جائے گا ۔ بروں کوسزا نیکوں کو جزا ملے گی۔