وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرًا لِلْمُتَّقِينَ ﴿48﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو (ہدایت وگمراہی میں) فرق کردینے والی اور (سرتاپا) روشنی اور نصیحت (کی کتاب) عطا کی (یعنی) پرہیزگاروں کے لئے ‏
تفسیر ابن كثیر
کتاب النور
ہم پہلے بھی اس بات کو جتا چکے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اکثر ملاجلا آتا ہے اور اسی طرح توراۃ اور قرآن کا ذکر بھی عموماً ایک ساتھ ہی ہوتا ہے۔ فرقان سے مراد کتاب یعنی تورات ہے جو حق وباطل حرام حلال میں فرق کرنے والی تھی۔ اسی سے جناب موسیٰ علیہ السلام کو مدد ملی ۔ کل کو کل آسمانی کتابیں حق وباطل ہدایت وگمراہی بھلائی برائی حلال وحرام میں جدائی کرنے والی ہوتی ہیں ۔ ان سے دلوں میں نورانیت ، اعمال میں حقانیت ، اللہ کا خوف وخشیت ڈر اور اللہ کی طرف رجوع حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے یہ کتاب نصیحت وپند اور نور وروشنی ہے ۔ پھر ان متقیوں کا وصف بیان فرمایا کہ وہ اپنے اللہ سے غائبانہ ڈرتے ہیں رہتے ہیں۔ جیسے جنتیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا آیت (من خشی الرحمن بالغیب وجاء بقلب منیب)۔ جو رحمن سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور جھکنے والا دل رکھتے ہیں۔ اور آیت میں ہے جو لوگ اپنے رب کا غائبانہ ڈر رکھتے ہیں ۔ ان کے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے۔ ان متقیوں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ قیامت کا کھٹکا رکھتے ہیں۔ اس کی ہولناکیوں سے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ اس قرآن عظیم کو بھی ہم نے ہی نازل فرمایا ہے جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آسکتا۔ جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اترا ہے۔ افسوس کیا اس قدر وضاحت وحقانیت صداقت ونورانیت والا قرآن بھی اس قابل ہے کہ تم اس کے منکر بنے رہو؟ ۔