إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ ﴿98﴾ [جالندھری] (کافر اس روز) تم اور جن کی تم خدا کے سوا عبادت کرتے ہو دوزخ کا ایندھن ہونگے (اور) تم (سب) اس میں داخل ہو کر رہوگے
تفسیر ابن كثیر
جہنم کی ہولناکیاں
بت پرستوں سے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ تم اور تمہارے بت جہنم کی آگ کی لکڑیاں بنوگے جیسے فرمان ہے آیت ( وقودہا الناس والحجارۃ) اس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر حبشی زبان میں حطب کو حصب کہتے ہیں یعنی لکڑیاں۔ بلکہ ایک قرأت میں بجائے حصب کے حطب ہے ۔ تم سب عابد ومعبود جہنمی ہو اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے ۔ اگریہ سچے معبود ہوتے کیوں آگ میں جلتے ؟ یہاں تو پرستار اور پرستش کئے جانے والے سب ابدی طور پردوزخی ہوگئے وہ الٹی سانس میں چیخیں گے جیسے فرمان ہے آیت (لہم فیہا زفیروشہیق) ، وہ سیدھی الٹی سانسوں سے چیخیں گے اور چیخوں کے سوا ان کے کان میں اور کوئی آواز نہ پڑے گی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جب صرف مشرک جہنم میں رہ جائیں گے انہیں آگ کے صندوقوں میں قید کردیا جائے گا جن میں آگ کے سریے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کو یہی گمان ہوگا کہ جہنم میں اس کے سوا اور کوئی نہیں پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی (ابن جریر) حسنیٰ سے مراد رحمت وسعادت ہیں ۔ دوزخیوں کا اور ان کے عذابوں کا ذکر کر کے اب نیک لوگوں اور ان کی جزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے یہ لوگ باایمان تھے ان کے نیک اعمال کی وجہ سے سعادت انکے استقبال کو تیار تھی جیسے فرمان ہے آیت (للذین احسنوا الحسنیٰ وزیادۃ)۔ نیکوں کے لئے نیک اجر ہے اور زیادتی اجر بھی ۔ فرمان ہے آیت (ہل جزاء الا حسان الا الاحسان) ۔ نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے ۔ ان کے دنیا کے اعمال نیک تھے تو آخرت میں ثواب اور نیک بدلہ ملا، عذاب سے بچے اور رحمت رب سے سرفراز ہوئے۔ یہ جہنم سے دور کردئیے گئے کہ اس کی آہٹ تک نہیں سنتے نہ دوزخیوں کا جلنا وہ سنتے ہیں۔ پل صراط پردوزخیوں کو زہریلے ناگ ڈستے ہیں اور یہ وہاں ہائے ہائے کرتے ہیں جنتی لوگوں کے کان بھی اس درد ناک آواز سے ناآشنا رہیں گے۔ اتنا ہی نہیں کہ خوف ڈر سے یہ الگ ہوگئے بلکہ ساتھ ہی راحت وآرام بھی حاصل کرلیا۔ من مانی چیزیں موجود۔ دوامی کی راحت بھی حاضر۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک رات اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا میں اور عمر عثمان اور زبیر اور طلحہ اور عبدالرحمن انہی لوگوں میں سے ہیں یا حضرت سعد کا نام لیا رضی اللہ عنہم۔ اتنے میں نماز کی تکبیر ہوئی تو آپ چادر گھیسٹتے آیت (وہم لایسمعون حسیسہا)۔ پڑھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوگئے اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ساتھی ایسے ہی ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں یہی لوگ اولیاء اللہ ہیں بجلی سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پل صراط سے پار ہوجائیں گے اور کافر وہیں گھٹنوں کے بل گرپڑیں گے ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ بزرگان دین ہیں جو اللہ والے تھے شرکت سے بیزار تھے لیکن ان کے بعد لوگوں نے ان کی مرضی کے خلاف ان کی پوجا پاٹ شروع کردی تھی ،حضرت عزیر،حضرت مسیح، فرشتے ، سورج، چاند ،حضرت مریم ، وغیرہ۔ عبداللہ بن زبعری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا تیرا خیال ہے کہ اللہ نے آیت (انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم)۔ اتاری ہے ؟ اگر یہ سچ ہے تو کیا سورج چاند، فرشتے عزیر، عیسیٰ ، سب کہ سب ہمارے بتوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے ؟ اس کے جواب میں آیت (ولما ضرب ابن مریم)۔ اور آیت (ان الذین سبقت لہم منا الحسنی)۔ نازل ہوئی۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ولید بن مغیرہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ نضر بن حارث آیا اس وقت مسجد میں اور قریشی بھی بہت سارے تھے نضر بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہا تھا لیکن وہ لاجوب ہوگیا آپ نے آیت (انکم وما تعبدون سے لایسمعون) تک تلاوت فرمائی ۔ جب آپ اس مجلس سے چلے گئے توعبد اللہ بن زبعری آیا لوگوں نے اس سے کہا آج نضر بن حارث نے باتیں کیں لیکن بری طرح چت ہوئے اور حضرت یہ فرماتے ہوئے چلے گے۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو انہیں جواب دیتا کہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود عزیر کو نصرانی مسیح کو تو کیا یہ سب بھی جہنم میں جلیں گے ؟ سب کو یہ جواب بہت پسند آیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا جس نے اپنی عبادت کرائی وہ عابدوں کے ساتھ جہنم میں ہے یہ بزرگ اپنی عبادتیں نہیں کراتے تھے بلکہ یہ لوگ تو انہیں نہیں شیطان کو پوج رہے ہیں اسی نے انہیں ان کی عبادت کی راہ بتائی ہے ۔ آپ کے جواب کے ساتھ ہی قرآنی جواب اس کے بعد ہی آیت (ان الذین سبقت) میں اترا تو جن نیک لوگوں کی جاہلوں نے پرستش کی تھی وہ اس سے مستثنیٰ ہوگئے۔ چنانچہ قرآن میں ہے آیت (ومن یقل منہم انی الہ من دونہ فذالک نجزیہ جہنم۔ الخ) یعنی ان میں سے جو اپنی معبودیت اوروں سے منوانی چاہے اس کا بدلہ جہنم ہے ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آیت (ولما ضرب ابن مریم مثلا الخ) اتری کہ اس بات کہ سنتے ہی وہ لوگ متعجب ہوگئے اور کہنے لگے ہمارے معبود اچھے یا وہ یہ تو صرف دھینگا مشتی ہے اور یہ لوگ جھگڑالو ہی ہیں وہ ہمارا انعام یافتہ بندہ تھا اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے نمونہ بنایا تھا ۔ اگر ہم چاہتے تو تمہارے جانشین فرشتوں کو کردیتے حضرت عیسیٰ نشان قیامت ہیں ان کے ہاتھ سے جو معجزات صادر ہوئے وہ شبہ والی چیزیں نہیں وہ قیامت کی دلیل ہیں تجھے اس میں کچھ شک نہ کرنا چاہے ۔ میری مانتا چلاجا یہی صراط مستقیم ہے ابن زبعری کی جرات دیکھئے خطاب اہل مکہ سے ہے اور ان کی ان تصویروں اور پتھروں کے لئے کہا گیا ہے جنہیں وہ سوائے اللہ کے پوجا کرتے تھے نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ پاک نفس کے لئے جو غیر اللہ کی عبادت سے روکتے تھے۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں لفظ ما جو یہاں ہے وہ عرب میں ان کے لئے آتا ہے جو بےجان اور بےعقل ہوں ۔ یہ ابن زبعری اس کے بعد مسلمان ہوگئے تھے رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ بڑے مشہور شاعر تھے۔ پہلے انہوں نے مسلمانوں کی دل کھول کر دھول اڑائی تھی لیکن مسلمان ہونے کے بعد معذرت کی۔ موت کی گھبراہٹ ، اس گھڑی کی گھبراہٹ جبکہ جہنم پر ڈھکن ڈھک دیا جائے گا جب کہ موت کو دوزخ جنت کے درمیان ذبح کردیا جائے گا۔ غرض کسی اندیشے کا نزول ان پر نہ ہوگا وہ ہر غم وہراس سے دور ہوں گے، پورے مسرور ہوں گے، خوش ہوں گے اور ناخوشی سے کوسوں الگ ہوں گے۔ فرشتوں کے پرے کے پرے ان سے ملاقاتیں کررہے ہوں گے اور انہیں ڈھارس دیتے ہوئے کہتے ہوں گے کہ اسی دن کا وعدہ تم سے کیا گیا تھا، اس وقت تم قبروں سے اٹھنے کے دن کے منتظر رہو۔