يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ ﴿104﴾
‏ [جالندھری]‏ جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیتے ہیں، جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلے پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کردیں گے (یہ) وعدہ (جس کا پورا کرنا لازم) ہے، ہم ایسا ضرور کرنے والے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ تعالٰی کی مٹھی میں تمام کائنات 
یہ قیامت کے دن ہوگا جب ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے جیسے فرمایا آیت (وما قدروا اللہ حق قدرہ الخ) ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالٰی کی تھی ، جانا ہی نہیں۔ تمام زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ۔ وہ پاک اور برتر ہے ہرچیز سے جسے لوگ اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں۔ بخاری شریف میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالٰی قیامت کے دن زمینوں کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں ساتوں آسمانوں کو اور وہاں کی کل مخلوق کو، ساتوں زمینوں کو اور اس کی کل کائنات کو اللہ تعالٰی اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا وہ اس کے ہاتھ میں ایسے ہوں گے جیسے رائی کا دانہ سجل سے مراد کتاب ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ مراد یہاں ایک فرشتہ ہے۔ جب کسی کا استغفار چڑھتا ہے تو وہ کہتا ہے اسے نور لکھ لو۔ یہ فرشتہ نامہ اعمال پر مقرر ہے۔ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کی کتاب کو اور کتابوں کے ساتھ لپیٹ کر اسے قیامت کے لئے رکھ دیتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ نام ہے اس صحابی کا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی تھا ۔ لیکن یہ روایت ثابت نہیں اکثر حفاظ حدیث نے ان سب کو موضوع کہا ہے خصوصا ہمارے استاد حافظ کبیر ابوالحجاج مزی رحمتہ اللہ نے۔ میں نے اس حدیث کو ایک الگ کتاب میں لکھا ہے امام جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث پر بہت ہی انکار کیا ہے اور اس کی خوب تردید کی اور فرمایا ہے کہ سجل نام کا کوئی صحابی ہے ہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کاتبوں کے نام مشہور ومعروف ہیں کسی کا نام سجل نہیں ۔ فی الواقع امام صاحب نے صحیح اور درست فرمایا یہ بڑی وجہ ہے اس حدیث کے منکر ہونے کی ۔ بلکہ یہ بھی یاد رہے کہ جس نے اس صحابی کا ذکر کیا ہے اس نے اسی حدیث پر اعتماد کرکے ذکر کیا ہے اور لغتا بھی یہی بات ہے پس فرمان ہے جس دن ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے اس طرح جیسے لکھی ہوئی کتاب لپیٹی جاتی ہے ۔ لام یہاں پر معنی میں علیٰ کے ہے جیسے تلہ للجبین میں لام معنی میں علیٰ ہے۔ لغت میں اس کی اور نظیریں بھی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ یہ یقینا ہوکر رہے گا۔ اس دن اللہ تعالٰی نئے سرے سے مخلوق کو پہلے کی طرح پیدا کرے گا ۔ جو ابتدا پر قادر تھا وہ اعادہ پر بھی اس سے زیادہ قادر ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اس کے وعدے اٹل ہوتے ہیں ، وہ کبھی بدلتے نہیں، نہ ان میں تضاد ہوتا ہے ۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے وہ اسے پورا کرکے ہی رہے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اپنے ایک وعظ میں فرمایا تم لوگ اللہ کے سامنے جمع ہونے والے ہو۔ ننگے پیر ننگے بدن بےختنے جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا اسی طرح دوبارہ لوٹائینگے یہ ہمارا وعدہ ہے جسے ہم پورا کرکے رہیں گے ۔ الخ( بخاری ) سب چیزیں نیست ونابود ہوجائیں گی پھر بنائی جائیں گی۔