هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ ﴿19﴾
‏ [جالندھری]‏ یہ دو (فریق) ایک دوسرے کے دشمن اپنے پروردگار (کے بارے) میں جھگڑتے ہیں تو جو کافر ہیں ان کے لئے آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے (اور) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی ڈالا جائے گا ‏
تفسیر ابن كثیر
مومن وکافر کی مثال۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ یہ آیت حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے مقابلے میں بدر کے دن جو دو کافر آئے تھے اور عتبہ اور اس کے دوساتھیوں کے بارے میں اتری ہے۔ ( بخاری ومسلم ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں قیامت کے دن میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے اپنی حجت ثابت کرنے کے لئے گھٹنوں کے بل گرجاؤں گا حضرت قیس فرماتے ہیں انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے بدر کے دن یہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے آئے تھے علی اور حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور عبیدہ اور شیبہ اور عتبہ اور ولید ۔ اور قول ہے کہ مراد مسلمان اور اہل کتاب ہیں۔ اہل کتاب کہتے تھے ہمارا نبی تمہارے نبی سے اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے اس لئے ہم اللہ سے بہ نسبت تمہارے زیادہ قریب ہیں۔ مسلمان کہتے تھے کہ ہماری کتاب تمہاری کتاب کا فیصلہ کرتی ہے اور ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں اس لئے تم سے ہم اولی ہیں پس اللہ نے اسلام کو غالب کیا اور یہ آیت اتری ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد اس سے سچا ماننے والے اور جھٹلانے والے ہیں۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس آیت میں مومن وکافر کی مثال ہے جو قیامت میں مختلف تھے ۔ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد جنت دوزخ کا قول ہے دوزخ کی مانگ تھی کہ مجھے سزا کی چیز بنا ۔ اور جنت کی آرزو تھی کہ مجھے رحمت بنا ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ان تمام اقوال میں شامل ہے اور بدر کا واقعہ بھی اس کے ضمن میں آسکتا ہے مومن اللہ کے دین کا غلبہ چاہتے تھے اور کفار نور ایمان کے بجھانے حق کو پست کرنے اور باطل کے ابھارنے کی فکر میں تھے۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ بھی اس کو مختار بتلاتے ہیں اور یہ ہے بھی بہت اچھا چنانچہ اس کے بعد ہی ہے کہ کفار کے لئے آگ کے ٹکڑے الگ الگ مقرر کردئے جائیں گے۔ یہ تانبے کی صورت ہوں گے جو بہت ہی حرارت پہنچاتا ہے پھر اوپر سے گرم ابلتے ہوئے پانی کا تریڑا ڈالا جائے گا۔ جس سے ان کے آنتیں اور چربی گھل جائے گی اور کھال بھی جھلس کر جھڑجائے گی۔ ترمذی میں ہے کہ اس گرم آگ جیسے پانی سے ان کی آنتیں وغیرہ پیٹ سے نکل کر پیروں پر گرپڑیں گی ۔ پھر جیسے تھے ویسے ہوجائیں گے پھر یہی ہوگا ۔ عبداللہ بن سری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں فرشتہ اس ڈولچے کو اس کے کڑوں سے تھام کرلائے گا اس کے منہ میں ڈالنا چاہے گا یہ گھبرا کر منہ پھیر لے گا۔ تو فرشتہ اس کے ماتھے پر لوہے کا ہتھوڑا مارے گا جس سے اس کا سر پھٹ جائے گا وہیں سے اس گرم آگ پانی کو ڈالے گا جو سیدھا پیٹ میں پہنچے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان ہتھوڑوں میں جن سے دوزخیوں کی ٹھکائی ہوگی اگر ایک زمین پر لاکر رکھ دیا جائے تو تمام انسان اور جنات مل کر بھی اسے اٹھا نہیں سکتے ۔ (مسند) آپ فرماتے ہیں اگر وہ کسی بڑے پہاڑ پر مار دیا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائے جہنمی اس سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے پھر جیسے تھے ویسے ہی کردئے جائیں گے اگر عساق کا جو جہنمیوں کی غذا ہے ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو تمام اہل دنیا بدبو کے مارے ہلاک ہوجائیں ۔ (مسند احمد) ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے لگتے ہی ایک ایک عضو بدن جھڑ جائے گا اور ہائے وائے کا غل مچ جائے گا جب کبھی وہاں سے نکل جانا چاہیں گے وہیں لوٹا دیئے جائیں گے ۔ حضرت سلمان فرماتے ہیں جہنم کی آگ سخت سیاہ بہت اندھیرے والی ہے اس کے شعلے بھی روشن نہیں نہ اس کے انگارے روشنی والے ہیں پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ حضرت زید رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے جہنمی اس میں سانس بھی نہ لے سکیں گے۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں واللہ انہیں چھوٹنے کی تو آس ہی نہیں رہے گی پیروں میں بوجھل بیڑیاں ہیں ہاتھوں میں مضبوط ہتھکڑیاں ہیں آگ کے شعلے انہیں اس قدر اونچا کر دیتے ہیں کہ گویا باہر نکل جائیں گے لیکن پھر فرشتوں کے ہاتھوں سے گرز کھا کر تہ میں اتر جاتے ہیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ اب جلنے کا مزہ چکھو۔ جیسے فرمان ہے ان سے کہا جائے گا اس آگ کا عذاب برداشت کرو جسے آج تک جھٹلاتے رہے۔ زبانی بھی اور اپنے اعمال سے بھی ۔