لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ﴿28﴾
‏ [جالندھری]‏ تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں اور (قربانی کے) ایام معلوم میں چہار پایاں مویشی (کے ذبح کے وقت) جو خدا نے ان کو دیے ہیں ان پر خدا کا نام لیں اس میں سے تم بھی کھاؤ اور فقیر درماندہ کو بھی کھلاؤ ‏
تفسیر ابن كثیر
دنیا اور آخرت کے فائدے
دنیا اور آخرت کے فوائد حاصل کرنے کے لئے آئیں ۔ اللہ کی رضا کے ساتھ ہی دنیاوی مفاد تجارت وغیرہ کا فائدہ اٹھائیں۔ جیسے فرمایا آیت (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلامن ربکم الخ)، موسم حج میں تجارت کرنا ممنوع نہیں۔ مقررہ دنوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کسی دن کا عمل اللہ کے نزدیک ان دنوں کے عمل سے افضل نہیں۔ لوگوں نے پوچھا جہاد بھی نہیں ؟ فرمایا جہاد بھی نہیں، بجز اس مجاہد کے عمل کے جس نے اپنی جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کردیا ہو (صحیح بخاری ) میں نے اس حدیث کو اس کی تمام سندوں کے ساتھ ایک مستقل کتاب میں جمع کردیا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کسی دن کا عمل اللہ کے نزدیک ان دنوں سے بڑا اور پیارا نہیں پس تم ان دس دنوں میں لا الہ اللہ اور الحمد اللہ بکثرت پڑھا کرو۔ انہی دنوں کی قسم آیت (ولیال عشر) کی آیت میں ہے ۔ بعض سلف کہتے ہیں آیت (واتممناھا بعشر) سے بھی مراد یہی دن ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ان دنوں بازار میں آتے اور تکبیر پکارتے ، بازار والے بھی آپ کے ساتھ تکبیر پڑھنے لگتے ۔ ان ہی دس دنوں میں عرفہ کا دن ہے جس دن کے روزے کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ گذشتہ اور آئندہ دوسال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں (صحیح مسلم شریف) ان ہی دس دنوں میں قربانی کا دن یعنی بقرعید کا دن ہے جس کا نام اسلام میں حج اکبر کا دن ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ سب دنوں سے افضل ہے۔ الغرض سارے سال میں ایسی فضیلت کے دن اور نہیں جیسے کہ حدیث شریف میں ہے۔ یہ دس دن رمضان شریف کے آخری دس دنوں سے بھی افضل ہیں ۔ کیونکہ نماز روزہ صدقہ وغیرہ جو رمضان کے اس آخری عشرے میں ہوتا ہے وہ سب ان دنوں میں بھی ہوتا ہے مزید برآں ان میں فریضہ حج ادا ہوتا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رمضان شریف کے آخری دن افضل ہیں کیونکہ انہیں میں لیلۃ القدر ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ تیسرے قول درمیانہ ہے کہ دن تو یہ افضل اور راتیں رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کی افضل ہیں۔ اس قول کے مان لینے سے مختلف دلائل میں جمع ہوجاتی ہیں واللہ اعلم ۔ ایام معلومات کی تفسیر میں ایک دوسرا قول یہ ہے کہ یہ قربانی کا دن اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔ حضرت ابن عمر اور ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ سے یہی مروی ہے اور ایک روایت سے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کامذہب بھی یہی ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ بقرہ عید اور اس کے بعد کے دو دن۔ اور ایام معدودات سے بقرہ عید اور اس کے بعد کے تین دن۔ اس کی اسناد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تک صحیح ہے ۔ سدی رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی کہتے ہیں امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس کی اور اس سے پہلے کے قول کی تائید فرمان باری آیت (علی مارزقہم من بہیمتہ الانعام) سے ہوتی ہے کیونکہ اس سے مراد جانوروں کی قربانی کے وقت اللہ کا نام لینا ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ عرفے کا دن بقرہ عید کا دن اور اس کے بعد کا ایک دن ہے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب یہی ہے۔ حضرت اسلم سے مروی ہے کہ مراد یوم نحر اور ایام تشریق ہیں بہیمتہ الانعام سے مراد اونٹ گائے اور بکری ہیں۔ جیسے سورۃ الانعام کی آیت (ثمانیۃ ازواج) میں مفصل موجود ہے ۔ لیکن یہ قول غریب ہے۔ اکثر بزرگوں کا مذہب ہے کہ یہ رخصت ہے یا استحباب ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قربانی کی تو حکم دیا کہ ہر اونٹ کے گوشت کا ایک ٹکڑا نکال کر پکالیا جائے پھر آپ نے وہ گوشت کھایا اور شوربا پیا ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں اسے پسند کرتا ہوں کہ قربانی کا گوشت قربانی کرنے والا کھا لے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے۔ ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ اپنی قربانی کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس کہ برخلاف مسلمانوں کو اس کے گوشت کے کھانے کی اجازت دی گئی اب جو چاہے کھائے جو چاہے نہ کھائے ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ اپنی قربانیوں کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس کے برخلاف مسلمانوں کو اس گوشت کے کھانے کی اجازت دی گئی اب جو چاہے کھائے جو چاہے نہ کھائے حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت عطا رحمتہ اللہ علیہ سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہاں کا یہ حکم آیت (واذا حللتم فصطادوا) کی طرح ہے یعنی جب تم احرام سے فارغ ہوجاؤ تو شکار کھیلو۔ اور سورۃ جمعہ میں فرمان ہے آیت (فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض) جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ مطلب یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حکم ہے شکار کرنے کا اور زمین میں روزی تلاش کرنے کے لئے پھیل جانے کا لیکن یہ حکم وجوبی اور فرضی نہیں اسی طرح اپنی قربانی کے گوشت کو کھانے کا حکم بھی ضروری اور واجب نہیں۔ امام ابن جریر بھی اس قول کو پسند فرماتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے دوحصے کردئیے جائیں ایک حصہ خود قربانی کرنے والے کا دوسرا حصہ فقیر فقراء کا ۔ بعض کہتے ہیں تین کرنے چاہیئں تہائی اپنا تہائی ہدیہ دینے کے لئے اور تہائی صدقہ کرنے کے لئے۔ پہلے قول والے اوپر کی آیت کی سند لاتے ہیں اور دوسرے قول والے آیت (واطعموالقانع المعتر) کو دلیل میں پیش کرتے ہیں اس کا پورا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالٰی عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آیت (البائس الفقیر) سے مطلب وہ بےبس انسان ہے جو احتیاج ہونے پر بھی سوال سے بچتا ہو۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو دست سوال دارز نہ کرتا ہو، کم بینائی والا ہو،
احکام حج 
پھر وہ احرام کھول ڈالے سرمنڈوالیں کپڑے پہن لیں ، ناخن کٹوا ڈالیں ، وغیرہ احکام حج پورے کرلیں ۔ نذریں پوری کرلیں حج کی قربانی کی اور جو ہو۔ پس جو شخص حج کے لئے نکلا اس کے ذمے طواف بیت اللہ، طواف صفا مروہ ، عرفات کے میدان میں جانا، مزدلفے کی حاضری،شیطانوں کو کنکر مارنا وغیرہ سب کچھ لازم ہے ۔ ان تمام احکام کو پورے کریں اور صحیح طور پر بجا لائیں اور بیت اللہ شریف کا طواف کریں جو یوم النحر کو واجب ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں حج کا آخری کام طواف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا جب آپ دس ذی الحجہ کو منی کی طرف واپس آئے تو سب سے پہلے شیطانوں کو سات سات کنکریاں ماریں۔ پھر قربانی کی، پھر سرمنڈوایا، پھر لوٹ کر بیت اللہ آکر طواف بیت اللہ کیا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بخاری ومسلم میں مروی ہے کہ لوگوں کو حکم کیا گیا ہے کہ ان کا آخری کام طواف بیت اللہ ہو۔ ہاں البتہ حائضہ عورتوں کو رعایت کردی گئی ہے بیت العتیق کے لفظ سے استدلال کرکے فرمایا گیا ہے کہ طواف کرنے والے کو حطیم بھی اپنے طواف کے اندر لے لینا چاہے۔ اس لئے کہ وہ بھی اصل بیت اللہ شریف میں سے ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنا میں یہ داخل تھا گو قریش نے نیا بناتے وقت اسے باہر چھوڑ دیا لیکن اس کی وجہ بھی خرچ کی کمی تھی نہ کہ اور کچھ ۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے پیچھے سے طواف کیا اور فرمایا بھی دیا کہ حطیم بیت اللہ شریف میں داخل ہے۔ اور آپ نے دونوں شامی رکنوں کو ہاتھ نہیں لگایا نہ بوسہ دیا کیونکہ وہ بناء ابراہیمی کے مطابق پورے نہیں ۔ اس آیت کے اترنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے پیچھے سے طواف کیا ۔ پہلے اس طرح کی عمارت تھی کہ یہ اندر تھا اسی لئے اسے پرانا گھر کہا گیا یہی سب سے پہلا اللہ کا گھر ہے اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ طوفان نوح میں سلامت رہا ۔ اور یہ بھی وجہ ہے کہ کوئی سرکش اس پر غالب نہیں آسکا ۔ یہ ان سب کی دستبرد سے آزاد ہے جس نے بھی اس سے برا قصد کیا وہ تباہ ہوا۔ اللہ نے اسے سرکشوں کے تسلط سے آزاد کرلیا ہے۔ ترمذی میں اسی طرح کی ایک مرفوع حدیث بھی ہے جو حسن غریب ہے اور ایک اور سند سے مرسلاًبھی مروی ہے۔