لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ ۚ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ ﴿37﴾
‏ [جالندھری]‏ خدا تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے اسی طرح خدا نے ان کو تمہارا مسخر کر دیا ہے تاکہ اس بات کے بدلے کہ اس نے تم کو ہدایت بخشی ہے اسے بزرگی سے یاد کرو اور (اے پیغمبر) نیکو کاروں کو خوشخبری سنا دو ‏
تفسیر ابن كثیر
قربانی پر اللہ تعالٰی کی کبریائی بیان کرو
ارشاد ہوتا ہے کہ قربانیوں کے وقت اللہ کا نام بڑائی سے لیا جائے۔ اسی لئے قربانیاں مقرر ہوئی ہیں کہ خالق رازق اسے مانا جائے نہ کہ قربانیوں کے گوشت وخون سے اللہ کو کوئی نفع ہوتا ہو۔ اللہ تعالٰی ساری مخلوق سے غنی اور کل بندوں سے بےنیاز ہے ۔ جاہلیت کی بیوقوفیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ قربانی کے جانور کا گوشت اپنے بتوں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور ان پر خون کا چھینٹا دیتے تھے ۔ یہ بھی دستور تھا کہ بیت اللہ شریف پر قربانی کے خون چھڑکتے ، مسلمان ہو کر صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایسا کرنے کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تو تقوی کو دیکھتا ہے اسی کو قبول فرماتا ہے اور اسی پر بدلہ عنایت فرماتا ہے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالٰی تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا نہ اس کی نظریں تمہارے مال پر ہیں بلکہ اس کی نگاہیں تمہارے دلوں پر اور تمہارے اعمال پر ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ خیرات وصدقہ سائل کے ہاتھ میں پڑے اس سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ۔ قربانی کے جانور کے خون کا قطرہ زمین پر ٹپکے اس سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ خون کا قطرہ الگ ہوتے ہی قربانی مقبول ہو جاتی ہے واللہ اعلم ۔ عامر شعبی سے قربانی کی کھالوں کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا اللہ کو گوشت وخون نہیں پہنچتا اگر چاہو بیچ دو، اگر چاہو خود رکھ لو، اگر چاہو راہ للہ دے دو ۔ اسی لئے اللہ تعالٰی نے ان جانوروں کو تمہارے قبضے میں دیا ہے ۔ کہ تم اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی راہ پا کر اس کی مرضی کے کام کرو اور نامرضی کے کاموں سے رک جاؤ ۔ اور اس کی عظمت وکبریائی بیان کرو۔ جو لوگ نیک کار ہیں ، حدود اللہ کے پابند ہیں ، شریعت کے عامل ہیں ، رسولوں کی صداقت تسلیم کرتے ہیں وہ مستحق مبارکباد اور لائق خوشخبری ہیں ۔ (مسئلہ ) امام ابو حنیفہ مالک ثوری کا قول ہے کہ جس کے پاس نصاب زکوٰۃ جتنا مال ہو اس پر قربانی واجب ہے ۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ وہ اپنے گھر میں مقیم ہو۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ جسے وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔ اس روایت میں غرابت ہے اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ اسے منکر بتاتے ہیں ۔ ابن عمر فرماتے ہیں رسول اللہ صلی علیہ وسلم برابر دس سال قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی ) امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت احمد رحمتہ اللہ علیہ کامذہب ہے کہ قربانی واجب وفرض نہیں بلکہ مستحب ہے ۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور کوئی فرضیت نہیں ۔ یہ بھی روایت پہلے بیان ہوچکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی پس وجوب ساقط ہوگیا ۔ حضرت ابو شریحہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پڑوس میں رہتا تھا ۔ یہ دونوں بزرگ قربانی نہیں کرتے تھے اس ڈر سے کہ لوگ ان کی اقتدا کریں گے۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی سنت کفایہ ہے، جب کہ محلے میں سے یا گلی میں سے یا گھر میں سے کسی ایک نے کر لی باقی سب نے ایسا نہ کیا ۔ اس لئے کہ مقصود صرف شعار کا ظاہر کرنا ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں فرمایا ہر گھر والوں پر ہرسال قربانی ہے اور عتیرہ ہے جانتے ہو عتیرہ کیا ہے؟ وہی جسے تم رجبیہ کہتے ہو۔ اس کی سند میں کلام کیا گیا ہے ۔ حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے پورے گھر کی طرف سے ایک بکری راہ للہ ذبح کردیا کرتے تھے اور خود بھی کھاتے ، اوروں کو بھی کھلاتے ۔ پھر لوگوں نے اس میں وہ کرلیا جو تم دیکھ رہے ہو۔ (ترمذی ، ابن ماجہ ) حضرت عبداللہ بن ہشام اپنی اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کیا کرتے تھے ۔ (بخاری ) اب قربانی کے جانور کی عمر کا بیان ملاحظہ ہو ۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نہ ذبح کرو مگر مسنہ بجز اس صورت کے کہ وہ تم پر بھاری پڑ جائے تو پھر بھیڑ کا بچہ بھی چھ ماہ کا ذبح کرسکتے ہو ۔ زہری تو کہتے ہیں کہ جزعہ یعنی چھ ماہ کا کوئی جانور قربانی میں کام ہی نہیں آسکتا اور اس کے بالمقابل اوزاعی کا مذہب ہے کہ ہر جانور کا جزعہ کافی ہے۔ لیکن یہ دونوں قول افراط والے ہیں ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اونٹ گائے بکری تو وہ جائز ہے جو ثنی ہو ۔ اور بھیڑ کا چھ ماہ کا بھی جائز ہے ۔ اونٹ تو ثنی ہوتا ہے جب پانچ سال پورے کرکے چھٹے میں لگ جائے۔ اور گائے جب دوسال پورے کرکے تیسرے میں لگ جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین گزار کر چوتھے میں لگ گیا ہو۔ اور بکری کا ثنی وہ ہے جو دوسال گزار چکا ہو اور جذعہ کہتے ہیں اسے جو سال بھر کا ہوگیا ہو اور کہا گیا ہے جو دس ماہ کا ہو ۔ ایک قول ہے جو آٹھ ماہ کا ہو ایک قول ہے جو چھ ماہ کا ہو اس سے کم مدت کا کوئی قول نہیں ۔ اس سے کم عمر والے کو حمل کہتے ہیں ۔ جب تک کہ اسکی پیٹھ پر بال کھڑے ہوں اور بال لیٹ جائیں اور دونوں جانب جھک جائیں تو اسے جذع کہا جاتا ہے ، واللہ اعلم ۔