أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ﴿39﴾
‏ [جالندھری]‏ جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور خدا (انکی مدد کرے گا وہ) یقینا انکی مدد پر قادر ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
حکم جہاد صادرہوا
ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینے سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکے سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری ۔ بہت سے سلف سے منقول ہے کہ جہاد کی یہ پہلی آیت ہے جو قرآن میں اتری۔ اسی سے بعض بزرگوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے شریف سے ہجرت کی ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبان سے نکلا کہ افسوس ان کفار نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکالا یقینا یہ تباہ ہوں گے ۔ پھر یہ آیت اتری تو صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی ۔ اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد پر قادر ہے۔ اگر چاہے تو بےلڑے بھڑے انہیں غالب کردے لیکن وہ آزمانا چاہتا ہے اسی لئے حکم دیا کہ ان کفار کی گردنیں مارو۔ الخ، اور آیت میں ہے فرمایا آیت (قاتلو ہم یعذبہم اللہ بایدیکم الخ)، ان سے لڑو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور رسوا کرے اور ان پر تمہیں غالب کرے گا اور مومنوں کے حوصلے نکالنے کا موقع دے گا کہ ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوجائیں ساتھ ہی جسے چاہے گا توفیق توبہ دے گا اللہ علم وحکمت والا ہے ۔ اور آیت میں ہے (ام حسبتم ان تترکوا ولما یعلم اللہ الذین جاہدوا منکم الخ)، یعنی کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ اب تک تو وہ کھل کر سامنے نہیں آئے جو مجاہد ہیں ، اللہ ، رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی سے دوستی اور یگانگت نہیں کرتے ۔ سمجھ لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ اور آیت میں ہے کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤگے حالانکہ اب تک مجاہدین اور صابرین دوسروں سے ممتاز نہیں ہوئے۔ اور آیت میں فرمایا ہے آیت (ولنبونکم حتی نعلم المجاہدین منکم والصابرین ونبلوا اخبارکم) ہم تمہیں یقینا آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے غازی اور صبر کرنے والے ہمارے سامنے نمایاں ہوجائیں ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔ اور یہی ہوا بھی کہ اللہ نے اپنے لشکر کو دنیا پر غالب کردیا ۔ جہاد کو شریعت نے جس وقت مشروع فرمایا وہ وقت بھی اس کے لئے بالکل مناسب اور نہایت ٹھیک تھا جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں رہے مسلمان بہت ہی کمزور تھے تعداد میں بھی دس کے مقالبے میں ایک بمشکل بیٹھتا ۔ چنانچہ جب لیلتہ العقبہ میں انصاریوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو انہوں نے کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس وقت منیٰ میں جتنے مشرکین جمع ہیں ان پر شبخون ماریں ۔ لیکن آپ نے فرمایا مجھے ابھی اس کا حکم نہیں دیا گیا ۔ یہ یاد رہے کہ یہ بزرگ صرف اسی (٨٠) سے کچھ اوپر تھے ۔ جب مشرکوں کی بغاوت بڑھ گئی ، جب وہ سرکشی میں حد سے گزر گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذائیں دیتے دیتے اب آپ کے قتل کرنے کے درپے ہوگئے آپ کو جلاوطن کرنے کے منصوبے گانٹھنے لگے۔ اسی طرح صحابہ کرام پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے ۔ بیک بینی ودوگوش وطن مال اسباب ، اپنوں غیروں کو چھوڑ کر جہاں جس کا موقعہ بنا گھبرا کرچل دیا کچھ تو حبشہ پہنچے کچھ مدینے گئے ۔ یہاں تک کہ خود آفتاب رسالت کاطلوع بھی مدینے شریف میں ہوا ۔ اہل مدینہ محمدی جھنڈے تلے جوش خروش سے جمع لشکری صورت مرتب ہوگئی ۔ کچھ مسلمان ایک جھنڈے تلے دکھائی دینے لگے، قدم ٹکانے کی جگہ مل گئی ۔ اب دشمنان دین سے جہاد کے احکام نازل ہوئے تو پس سب سے پہلے یہی آیت اتری ۔ اس میں بیان فرمایا گیا کہ یہ مسلمان مظلوم ہیں، ان کے گھربار ان سے چھین لئے گئے ہیں ، بےوجہ گھر سے بےگھر کردئیے گئے ہیں ، مکے سے نکال دئیے گئے ، مدینے میں بےسرو سامانی میں پہنچے۔ ان کا جرم بجز اس کے سوا نہ تھا کہ صرف اللہ کے پرستار تھے رب کو ایک مانتے تھے اپنے پروردگار صرف اللہ کو جانتے تھے ۔ یہ استثنا منقطع ہے گو مشرکین کے نزدیک تو یہ امر اتنا بڑا جرم ہے جو ہرگز کسی صورت سے معافی کے قابل نہیں ۔ فرمان ہے آیت (یخرجون الرسول وایاکم ان تومنوا باللہ ربکم الخ)، تمہیں اور ہمارے رسول کو صرف اس بنا پر نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا حقیقی پروردگار ہے ۔ خندقوں والوں کے قصے میں فرمایا آیت (وما نقموا منہم الا ان یومنوا باللہ العزیز الحمید) یعنی دراصل ان کا کوئی قصور نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالٰی غالب ، مہربان ، ذی احسان پر ایمان لائے تھے ۔ مسلمان صحابہ خندق کھودتے ہوئے اپنے رجز میں کہہ رہے تھے۔
شعر (لاہم لو لا انت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا 
فانزلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا 
ان الا ولی قد بغوا علینا اذا ارادوافتنتہ ابینا )
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی موافقت میں تھے اور قافیہ کا آخری حرف آپ بھی ان کے ساتھ ادا کرتے اور ابینا کہتے ہوئے خوب بلند آواز کرتے ۔ پھر فرماتا ہے اگر اللہ تعالٰی ایک کا علاج دوسرے سے نہ کرتا اگر ہر سیر پر سوا سیر نہ ہوتا تو زمین میں شرفساد مچ جاتا، ہر قوی ہرکمزور کو نگل جاتا ۔ عیسائی عابدوں کے چھوٹے عبادت خانوں کو صوامع کہتے ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ صابی مذہب کے لوگوں کے عبادت خانوں کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں مجوسیوں کے آتش کدوں کو صوامع کہتے ہیں۔ مقامل کہتے ہیں یہ وہ گھر ہیں جو راستوں پر ہوتے ہیں ۔ بیع ان سے بڑے مکانات ہوتے ہیں یہ بھی نصرانیوں کے عابدوں کے عبادت خانے ہوتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں یہ یہودیوں کے کنیسا ہیں ۔ صلوات کے بھی ایک معنی تو یہی کئے گئے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں مراد گرجا ہیں۔ بعض کا قول ہے صابی لوگوں کا عبادت خانہ ۔ راستوں پر جو عبادت کے گھر اہل کتاب کے ہوں انہیں صلوات کہاجاتا ہے اور مسلمانوں کے ہوں انہیں مساجد۔ فیہا کی ضمیر کا مرجع مساجد ہے اس لئے کہ سب سے پہلے یہی لفظ ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ سب جگہیں ہیں یعنی تارک الدنیا لوگوں کے صوامع ، نصرانیوں کے بیع ، یہودیوں کے صلوات اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام خوب لیا جاتا ہے ۔ بعض علماء کا بیان ہے کہ اس آیت میں اقل سے اکثر کی طرف کی ترقی کی صنعت رکھی گئی ہے پس سب سے زیادہ آباد سب سے بڑا عبادت گھر جہاں کے عابدوں کا قصد صحیح نیت نیک عمل صالح ہے وہ مسجدیں ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ اپنے دین کے مددگاروں کا خود مددگار ہے جیسے فرمان ہے آیت (یاایہا الذین امنوا ان تنصروا اللہ ینصرکم الخ)، یعنی اگر اے مسلمانو! تم اللہ کے دین کی امداد کروگے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔ کفار پر افسوس ہے اور ان کے اعمال غارت ہیں۔ پھر اپنے دو وصف بیان فرمائے قوی ہونا کہ ساری مخلوق کو پیدا کر دیا ، عزت والا ہونا کہ سب اس کے ماتحت ہر ایک اس کے سامنے ذلیل وپست سب اس کی مدد کے محتاج وہ سب سے بےنیاز جسے وہ مدد دے وہ غالب جس پر سے اس کی مدد ہٹ جائے وہ مغلوب ۔ فرماتا ہے آیت (ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انہم لہم المنصورون الخ)، یعنی ہم نے تو پہلے سے ہی اپنے رسولوں سے وعدہ کرلیا ہے کہ ان کی یقینی طور پر مدد کی جائے گی اور یہ کہ ہمارا لشکر ہی غالب آئے گا ۔ اور آیت میں ہے آیت (کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی الخ)، خدا کہہ چکا ہے کہ میں اور میرا رسول غالب ہیں ۔ بیشک اللہ تعالٰی قوت وعزت والا ہے ۔