قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ ﴿49﴾
‏ [جالندھری]‏ (اے پیغمبر) کہہ دو کہ لوگو! میں تم کو کھلم کھلا نصیحت کرنے والا ہوں ‏
تفسیر ابن كثیر
اطاعت الٰہی سے روکنے والوں کا حشر
چونکہ کفار عذاب مانگا کرتے تھے اور ان کی جلدی مچاتے رہتے تھے ان کے جواب میں اعلان کرایا جارہا ہے کہ لوگو! میں تو اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ تمہیں رب کے عذابوں سے جو تمہارے آگے ہیں چوکنا کردوں، تمہارا حساب میرے ذمے نہیں۔ عذاب اللہ کے بس میں ہے چاہے اب لائے چاہے دیر سے لائے۔ مجھے کیا معلوم کہ تم میں کس کی قسمت میں ہدایت ہے اور کون اللہ کی رحمت سے محروم رہنے والا ہے چاہت اللہ کی ہی پوری ہونی ہے حکومت اسی کے ہاتھ ہے مختار اور کرتا دھرتا وہی ہے کسی کو اس کے سامنے چوں چرا کی مجال نہیں وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ میری حیثیت تو صرف ایک آگاہ کرنے والے کی ہے۔ جن کے دلوں میں یقین وایمان ہے اور اسکی شہادت انکے اعمال سے بھی ثابت ہے۔ انکے کل گناہ معافی کے لائق ہیں اور ان کی کل نیکیاں قدردانی کے قابل ہیں۔ رزق کریم سے مراد جنت ہے۔ جو لوگ اوروں کو بھی اللہ کی راہ سے اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روکتے ہیں وہ جہنمی ہیں ، سخت عذابوں اور تیز آگ کے ایندھن ہیں ، اللہ ہمیں بچائے۔ اور آیت میں ہے کہ ایسے کفار کو انکے فساد کے بدلے عذاب پر عذاب ہیں ۔