وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ ﴿55﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے یہاں تک کہ قیامت ان پر ناگہاں آجائے یا ایک نامبارک دن کا عذاب ان پر آواقع ہو ‏
تفسیر ابن كثیر
کافروں کے دل سے شک وشبہ نہیں جائے گا
یعنی کافروں کو جوشک شبہ اللہ کی اس وحی یعنی قرآن میں ہے وہ ان کے دلوں سے نہیں جائے گا۔ شیطان یہ غلط گمان قیامت تک ان کے دلوں سے نہ نکلنے دے گا ۔ قیامت اور اس کے عذاب ان کے پاس ناگہاں آجائیں گے۔ اس وقت یہ محض بےشعور ہوں گے جو مہلت انہیں مل رہی ہے اس سے یہ مغرور ہوگئے ۔ جس قوم کے پاس اللہ کے عذاب آئے اسی حالت میں آئے کہ وہ ان سے نڈر بلکہ بےپروا ہوگئے تھے اللہ کے عذابوں سے غافل وہی ہوتے ہیں جو پورے فاسق اور اعلانیہ مجرم ہوں ۔ یا انہیں بےخبر دن عذاب پہنچے جو دن ان کے لئے منحوس ثابت ہوگا۔ بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد یوم بدر ہے اور بعض نے کہا ہے مراد اس سے قیامت کا دن ہے یہی قول صحیح ہے گو بدر کا دن بھی ان کے لئے عذاب اللہ کا دن تھا۔ اس دن صرف اللہ کی بادشاہت ہوگی جیسے اور آیت میں ہے اللہ تعالٰی قیامت کے دن کا مالک ہے ۔ اور آیت میں ہے اس دن رحمن کا ہی ملک ہوگا اور وہ دن کافروں پر نہایت ہی گراں گزرے گا ۔ فیصلے خود اللہ کرے گا ۔ جن کے دلوں میں اللہ پر ایمان رسول کی صداقت اور ایمان کے مطابق جن کے اعمال تھے جن کے دل اور عمل میں موافقت تھی۔ جن کی زبانیں دل کے مانند تھیں وہ جنت کی نعمتوں میں مالا مال ہوں گے جو نعمتیں نہ فنا ہوں نہ گھٹیں نہ بگڑیں نہ کم ہوں۔ جن کے دلوں میں حقانیت سے کفر تھا ، جو حق کو جھٹلاتے تھے ، نبیوں کے خلاف کرتے تھے ، اتباع حق سے تکبر کرتے تھے ان کے تکبر کے بدلے انہیں ذلیل کرنے والے عذاب ہوں گے۔ جیسے فرمان ہے آیت (ان الذین یستکبروں عن عبادتی سیدخلون جہنم داخرین) جو لوگ میری عبادتوں سے سرکشی کرتے ہیں وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ۔