أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً ۗ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ﴿63﴾ [جالندھری] کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا آسمان سے مینہ برساتا ہے تو زمین سرسبز ہو جاتی ہے؟ بیشک خدا باریک بین اور خبردار ہے
تفسیر ابن كثیر
اپنی عظیم الشان قدرت اور زبردست غلبے کو بیان فرما رہا ہے کہ سو کھی غیر آباد مردہ زمین پر اس کے حکم سے ہوائیں بادل لاتی ہیں جو پانی برساتے ہیں اور زمین لہلہاتی ہوئی سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے گویا جی اٹھتی ہے ۔ یہاں پر "ف"تعقیب کے لئے ہے ہرچیز کی تعقیب اسی کے انداز سے ہوتی ہے ۔ نطفے کا ملقہ ہونا پھر ملقے کامضغہ ہونا جہاں بیان فرمایا ہے وہاں بھی "ف" آئی ہے اور ہر دو صورت میں چالیس دن کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اور یہ بھی مذکور ہے کہ حجاز کی بعض زمینیں ایسی بھی ہیں کہ بارش کے ہوتے ہی معا سرخ وسبز ہوجاتی ہیں فاللہ اعلم ۔ زمین کے گوشوں میں اور اس کے اندر جو کچھ ہے ، سب اللہ کے علم میں ہے۔ ایک ایک دانہ اس کی دانست میں ہے ۔ پانی وہیں پہنچتا ہے اور وہ اگ آتا ہے ۔ جیسے حضرت لقمان رحمتہ اللہ علیہ کے قول میں ہے کہ اے بچے ! اگرچہ کوئی چیز رائی کے دانے برابر ہوچاہے کسی چٹان میں ہو یا آسمان میں یا زمین میں اللہ اسے ضرور لائے گا اللہ تعالٰی پاکیزہ اور باخبر ہے ۔ ایک اور آیت میں ہے زمین وآسمان کی ہرچیز کو اللہ ظاہر کر دے گا ۔ ایک آیت میں ہے ، ہرپتے کے جھڑنے کا ، ہر دانے کا جو زمین کے اندھیروں میں ہو ہر تر وخشک چیز کا اللہ کو علم ہے اور وہ کھلی کتاب میں ہے ۔ ایک اور آیت میں کوئی ذرہ آسمان وزمیں میں اللہ سے پوشیدہ نہیں ، کوئی چھوٹی بڑی چیز ایسی نہیں جو ظاہر کتاب میں نہ ہو ۔ امیہ بن ابو صلت یا زید بن عمر و بن نفیل کے قصیدے میں ہے شعر(
وقولا لہ من ینبت الحب فی الثری فیصبح منہ البقل یہترہ رابیا
ویخرج منہ حبہ فی روسہ ففی ذاک ایات لمن کان داعیا)
"اے میرے دونوں پیغمبرو! تم اس سے کہو کہ مٹی میں سے دانے کون نکالتا ہے کہ درخت پھوٹ کر جھومنے لگتا ہے اور اس کے سرے پر بال نکل آتی ہے؟ عقل مند کے لئے تو اس میں قدرت کی ایک چھوڑ کئی نشانیاں موجود ہیں ۔ تمام کائنات کا مالک وہی ہے ۔ وہ ہر ایک سے بےنیاز ہے ۔ ہر ایک اس کے سامنے فقیر اور اس کی بارگاہ عالی کا محتاج ہے ۔ سب انسان اس کے غلام ہیں۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ کل حیوانات ، جمادات ، کھیتیاں ، باغات اس نے تمہارے فائدے کے لئے ، تمہاری ماتحتی میں دے رکھے ہیں آسمان وزمین کی چیزیں تمہارے لئے سرگرداں ہیں ۔ اس کا احسان وفضل وکرم ہے کہ اسی کے حکم سے کشتیاں تمہیں ادھر سے ادھر لے جاتی ہیں ۔ تمہارے مال ومتاع ان کے ذریعے یہاں سے وہاں پہنچتے ہیں۔ پانی کو چیرتی ہوئیں، موجوں کو کاٹتی ہوئیں بحکم الٰہی ہواؤں کے ساتھ تمہارے نفع کے لئے چل رہی ہیں ۔ یہاں کی ضرورت کی چیزیں وہاں سے وہاں کی یہاں برابر پہنچتی رہتی ہیں ۔ وہ خود آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر نہ گرپڑے ورنہ ابھی وہ حکم دے تو یہ زمین پر آرہے اور تم سب ہلاک ہوجاؤ ۔ انسانوں کے گناہوں کے باوجود اللہ ان پر رافت وشفقت ، بندہ نوازی اور غلام پروری کر رہا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت (وان ربک لذومغفرۃ للناس علی ظلمہم الخ) ، لوگوں کے گناہوں کے باوجود اللہ تعالٰی ان پر صاحب مغفرت ہے ۔ ہاں بیشک وہ سخت عذابوں والا بھی ہے ۔ "اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے ، وہی تمہیں فناکرے گا، وہی پھر دوبارہ پیدا کرے گا۔ جیسے فرمایا آیت (کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتا فاحیاکم الخ )، تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو؟ حالانکہ تم مردہ تھے، اسی نے تمہیں زندہ کیا پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا، پھر دوبارہ زندہ کردے گا ۔ پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے" ایک اور آیت میں ہے (قل اللہ یحییکم ثم یمیتکم الخ )، اللہ ہی تمہیں دوبارہ زندہ کرتا ہے پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا پھر تمہیں قیامت والے دن ، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں جمع کرے گا ۔ اور جگہ فرمایا "وہ کہیں گے کہ اے اللہ تونے ہمیں دو دفعہ مارا اور دو دفعہ زندہ کیا ۔ پس کلام کامطلب یہ ہے کہ ایسے اللہ کے ساتھ تم دوسروں کو شریک کیوں ٹھیراتے ہو؟ دوسروں کی عبادت اسکے ساتھ کیسے کرتے ہو؟ پیدا کرنے والا فقط وہی، روزی دینے والا وہی، مالک ومختار فقط وہی، تم کچھ نہ تھے اس نے تمہیں پیدا کیا ۔ پھر تمہاری موت کے بعد دوبارہ پیدا کرے گا یعنی قیامت کے دن انسان بڑا ہی ناشکرا اور بےقدرا ہے