أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ﴿70﴾ [جالندھری] کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے خدا اس کو جانتا ہے؟ یہ (سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے بیشک یہ سب خدا کو آسان ہے
تفسیر ابن كثیر
کمال علم رب کی شان
رب کے کمال علم کا بیان ہو رہا ہے کہ زمین وآسمان کی ہرچیز اس کے علم کے احاطہ میں ہے ایک ذرہ بھی اس سے باہر نہیں کائنات کے وجود سے پہلے ہی کائنات کا علم اسے تھا بلکہ اس نے لوح محفوظ میں لکھوا دیا تھا ۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ اللہ تعالٰی نے آسمان وزمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے جب کہ اس کا عرش پانی پر تھا مخلوق کی تقدیر لکھی ۔ سنن کی حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے فلک کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا لکھ اس نے دریافت کیا کہ کیا لکھوں ؟ فرمایا جو کچھ ہونے والا ہے پس قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا اسے قلم نے قلم بند کردیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ سو سال کی راہ میں اللہ نے لوح محفوظ کو پیدا کیا اور مخلوق کی پیدائش سے پہلے جب کہ اللہ تعالٰی عرش پر تھا قلم کو لکھنے کا حکم دیا اس نے پوچھا کیا لکھوں فرمایا میرا علم جو مخلوق کے متعلق قیامت کا ہے ۔ پس قلم چل پڑا اور قیامت تک کے ہونے والے امور جو علم الٰہی میں ہے اس نے لکھ لئے ۔ پس اسی کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت میں فرما رہا ہے کہ کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان وزمین کی ہر ایک چیز کا میں عالم ہوں ۔ پس یہ اس کا کمال علم ہے کہ چیز کے وجود سے پہلے اسے معلوم ہے بلکہ لکھ بھی لیا ہے اور وہ سب یوں ہی واقع میں ہونے والا ہے ۔ اللہ کو بندوں کے تمام اعمال کا علم ان کے عمل سے پہلے ہے ۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کرنے سے پہلے اللہ جانتا تھا ، ہر فرماں بردار اور نافرمان اس کے علم میں تھا اور اس کی کتاب میں لکھا ہوا تھا اور ہرچیز اس کے علمی احاطے کے اندر ہی اندر اور یہ امر اللہ پر مشکل بھی نہ تھا سب کتاب میں تھا اور رب پر بہت ہی آسان ۔