اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ﴿75﴾ [جالندھری] خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے اور انسانوں میں سے بھی بیشک خدا سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
تفسیر ابن كثیر
منصب نبوت کا حقدار کون؟
اپنی مقرر کردہ تقدیر کے جاری کرنے اور اپنی مقرر کردہ شریعت کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالٰی جس فرشتے کو چاہتا ہے ، مقرر کرلیتا ہے اسی طرح لوگوں میں سے بھی پیغمبری کی خلعت سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے ۔ بندوں کے سب اقوال سنتا ہے ایک ایک بندہ اور اس کے اعمال اس کی نگاہ میں ہیں وہ بخوبی جانتا ہے کہ منصب نبوت کامستحق کون ہے ؟ جیسے فرمایا آیت (اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ) ۔ رب ہی کو علم ہے کہ منصب رسالت کا صحیح طور اہل کون ہے ؟ رسولوں کے آگے پیچھے کا اللہ کو علم ہے ، کیا اس تک پہنچا ، کیا اس نے پہنچایا ، سب اس پر ظاہر وباہر ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت (عالم الغیب فلایظہر علی غیبہ احدا الخ) ، یعنی وہ غیب کا جاننے والا ہے اپنے غیب کا کسی پر اظہار نہیں کرتا ۔ ہاں جس پیغمبر کو وہ پسند فرمائے اس کے آگے پیچھے پہرے مقرر کردیتا ہے ۔ تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغام پہنچادئے اور اللہ تعالٰی ہر اس چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے جو ان کے پاس ہے اور ہرچیز کی گنتی تک اس کے پاس شمار ہو چکی ہے ۔ پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے رسولوں کا نگہبان ہے جو انہیں کہا سنا جاتا ہے اس پر خود گواہ ہے خود ہی ان کا حافظ ہے اور ان کا مددگار بھی ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت (یاایہا الرسول بلغ ماانزل الیک الخ )، اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تیرے پاس تیرے رب کے طرف سے اترا ہے ، پہنچادے اگر ایسا نہ کیا تو حق رسالت ادا نہ ہوگا تیرا بچاؤ اللہ کے ذمے ہے، الخ۔