وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ ﴿18﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم ہی نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ پانی نازل کیا پھر اس کو زمین میں ٹھہرا دیا اور ہم اس کے نابود کر دینے پر قادر ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
آسمان سے نزول بارش 
اللہ تعالٰی کی یوں تو بیشمار اور ان گنت نعمتیں ہیں ۔ لیکن چند بڑی بڑی نعمتوں کا یہاں ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آسمان سے بقدر حاجت وضرورت بارش برساتا ہے ۔ نہ تو بہت زیادہ کہ زمین خراب ہوجائے اور پیداوار گل سڑ جائے ۔ نہ بہت کم کہ پھل اناج وغیرہ پیدا ہی نہ ہو ۔ بلکہ اس اندازے سے کہ کھیتی سرسبز رہے ، باغات ہرے بھرے رہیں ۔ حوض، تالاب، نہریں ندیاں ، نالے ، دریا بہہ نکلیں نہ پینے کی کمی ہو نہ پلانے کی ۔ یہاں تک کہ جس جگہ زیادہ بارش کی ضرورت ہوتی ہے زیادہ ہوتی ہے اور جہاں کم کی ضرورت ہوتی ہے کم ہوتی ہے اور جہاں کی زمین اس قابل ہی نہیں ہوتی وہاں پانی نہیں برستا لیکن ندیوں اور نالوں کے ذریعہ وہاں قدرت برساتی پانی پہنچا کر وہاں کی زمین کو سیراب کردیتی ہے ۔ جیسے کہ مصر کے علاقہ کی زمین جو دریائے نیل کی تری سے سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے ۔ اسی پانی کے ساتھ سرخ مٹی کھیچ کر جاتی ہے جو حبشہ کے علاقہ میں ہوتی ہے وہاں کی بارش کے ساتھ مٹی بہہ کر پہنچتی ہے جو زمین پر ٹھہرجاتی ہے اور زمین قابل زراعت ہوجاتی ہے ورنہ وہاں کی شور زمین کھیتی باڑی کے قابل نہیں ۔ سبحان اللہ اس لطیف خبیر، اس غفور رحیم اللہ کی کیا کیا قدرتیں اور حکمتیں زمین میں اللہ پانی کو ٹھیرا دیتا ہے زمین میں اس کو چوس لینے اور جذب کرلینے کی قابلیت اللہ تعالٰی پیدا کردیتا ہے تاکہ دانوں کو اور گٹھلیوں کو اندر ہی اندر وہ پانی پہنچا دے پھر فرماتا ہے ہم اس کے لے جانے اور دور کردینے پریعنی نہ برسانے پر بھی قادر ہیں اگرچاہیں شور ، سنگلاخ زمین، پہاڑوں اور بےکار بنوں میں برسادیں ۔ اگر چاہیں تو پانی کو کڑوا کردیں نہ پینے کے قابل رہے نہ پلانے کے ، نہ کھیت اور باغات کے مطلب کار ہے ، نہ نہانے دھونے کے مقصد کا۔ اگرچاہیں زمین میں وہ قوت ہی نہ رکھیں کہ وہ پانی کو جذب کرلے چوس لے بلکہ پانی اوپر ہی اوپر تیرتا پھرے یہ بھی ہمارے اختیار میں ہے کہ ایسی دوردراز جھیلوں میں پانی پہنچا دیں کہ تمہارے لے بےکار ہوجائے اور تم کوئی فائدہ اس سے نہ اٹھا سکو۔ یہ خاص اللہ کا فضل وکرم اور اس کا لطف ورحم ہے کہ وہ بادلوں سے میٹھا عمدہ ہلکا اور خوش ذائقہ پانی برساتا ہے پھر اسے زمین میں پہنچاتا ہے اور ادھر ادھر ریل پیل کردیتا ہے کھیتیاں الگ پکتی ہیں باغات الگ تیار ہوتے ہیں، خود پیتے ہو اپنے جانوروں کو پلاتے ہو نہاتے دھوتے ہو پاکیزگی اور ستھرائی حاصل کرتے ہو فالحمدللہ ۔ 
آسمانی بارش سے رب العالمین تمہارے لئے روزیاں اگاتا ہے، لہلہاتے ہوئے کھیت ہیں، کہیں سرسبز باغ ہیں جو خوش نما اور خوش منظر ہونے کے علاوہ مفید اور فیض والے ہیں ۔ کھجور انگور جو اہل عرب کا دل پسند میوہ ہے ۔ اور اسی طرح ہر ملک والوں کے لئے الگ الگ طرح طرح کے میوے اس نے پیدا کردیے ہیں ۔ جن کے حصول کے عوض اللہ کے شکرگزاری بھی کسی کے بس کی نہیں ۔ بہت میوے تمہیں اس نے دے رکھے ہیں جن کی خوبصورتی بھی تم دیکھتے ہو اور ان کے ذائقے سے بھی کھا کر فائدہ اٹھاتے ہو۔ پھر زیتوں کے درخت کا ذکر فرمایا ۔ طورسیناوہ پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بات چیت کی تھی اور اس کے ارد گرد کی پہاڑیاں طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جو ہرا اور درختوں والا ہو ورنہ اسے جبل کہیں گے طور نہیں کہیں گے۔ پس طورسینا میں جو درخت زیتوں پیدا ہوتا ہے اس میں سے تیل نکلتا ہے جو کھانے والوں کو سالن کا کام دیتا ہے۔ حدیث میں ہے زیتوں کا تیل کھاؤ اور لگاؤ وہ مبارک درخت میں سے نکلتا ہے ( احمد) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاں ایک صاحب عاشورہ کی شب کو مہمان بن کر آئے تو آپ نے انہیں اونٹ کی سری اور زیتون کھلایا اور فرمایا یہ اس مبارک درخت کا تیل ہے جس کا ذکر اللہ تعالٰی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے چوپایوں کا ذکر ہو رہا ہے اور ان سے جو فوائد انسان اٹھا رہے ہیں، ان پر سوار ہوتے ہیں ان پر اپنا سامان اسباب لادتے ہیں اور دوردراز تک پہنچتے ہیں کہ یہ نہ ہوتے تو وہاں تک پہچنے میں جان آدھی رہ جاتی۔ بیشک اللہ تعالٰی بندوں پر مہربانی اور رحمت والا ہے جیسے فرمان ہے آیت (اولم یروا اناخلقنا لہم الخ) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ خود ہم نے انہیں چوپایوں کا مالک بنا رکھا ہے کہ یہ ان کے گوشت کھائیں ان پر سواریاں لیں اور طرح طرح کہ نفع حاصل کریں کیا اب بھی ان پر ہماری شکر گزاری واجب نہیں ؟ یہ خشکی کی سواریاں ہیں پھر تری کی سواریاں کشتی جہاز وغیرہ الگ ہیں۔