وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ ﴿50﴾
‏ [جالندھری]‏ اور مریم کے بیٹے (عیسی) اور ان کی ماں کو (اپنی) نشانی بنایا تھا اور ان کو ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور جہاں (نتھرا ہوا) پانی جاری تھا پناہ دی تھی ‏
تفسیر ابن كثیر
ربوہ کے معنی 
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کی ایک زبردست نشانی بنایا آدم کو مرد وعورت کے بغیر پیدا کیا حوا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا عیسیٰ علیہ السلام کو صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کیا ۔ بقیہ تمام انسانوں کو مرد وعورت سے پیدا کیا ۔ ربوہ کہتے ہیں بلند زمین کو جو ہری اور پیداوار کے قابل ہو وہ جگہ گھاس پانی والی تروتازہ اور ہری بھری تھی ۔ جہاں اللہ تعالٰی نے اپنے اس غلام اور نبی کو اور انکی صدیقہ والدہ کو جو اللہ کی بندی اور لونڈی تھیں جگہ دی تھی ۔ وہ جاری پانی والی صاف ستھری ہموار زمین تھی ۔ کہتے ہیں یہ ٹکڑا مصر کا تھا یا دمشق کا یا فلسطین کا۔ ربوۃ ریتلی زمین کو بھی کہتے ہیں ۔ چنانچہ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا تھا کہ تیرا انتقال ربوہ میں ہوگا ۔ وہ ریتلی زمین میں فوت ہوئے۔ ان تمام اقوال میں زیادہ قریب قول وہ ہے کہ مراد اس سے نہر ہے جیسے اور آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے آیت (قد جعل ربک تحتک سریا) تیرے رب نے تیرے قدموں تلے ایک جاری نہر بہادی ہے ۔ پس یہ مقام بیت المقدس کا مقام ہے تو گویا اس آیت کی تفسیر یہ آیت ہے اور قرآن کی تفسیر اولاً قرآن سے پھر حدیث سے پھر آثار سے کرنی چاہے۔