إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ ﴿57﴾
‏ [جالندھری]‏ جو لوگ اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
مؤمن کی تعریف
فرمان ہے کہ احسان اور ایمان کے ساتھ ہی ساتھ نیک اعمال اور پھر اللہ کی ہیبت سے تھرتھرانا اور کانپتے رہنا یہ ان کی صفت ہے ۔ یہ ان کی صفت ہے حسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مومن نیکی اور خوف الٰہی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ منافق برائی کے ساتھ نڈر اور بےخوف ہوتا ہے ۔ یہ اللہ تعالٰی کی شرعی اور فطری آیات اور نشانیوں پر یقین رکھتے ہیں جیسے حضرت مریم علیہا السلام کا وصف بیان ہوا ہے کہ وہ اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کا یقین رکھتی تھیں اللہ کی قدرت قضا اور شرع کا انہیں کامل یقین تھا ۔ اللہ کے ہر امر کو وہ محبوب رکھتے ہیں اللہ کے منع کردہ ہرکام کو وہ ناپسند رکھتے ہیں ، ہرخبر کو وہ سچ مانتے ہیں وہ موحد ہوتے ہیں شرک سے بیزار رہتے ہیں ، اللہ کو واحد اور بےنیاز جانتے ہیں اسے بے اولاد اور بیوی کے بغیر مانتے ہیں ، بینظیر اور بےکفو سمجھتے ہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اللہ کے نام پر خیراتیں کرتے ہیں لیکن خوف زدہ رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو قبول نہ ہوئی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے زنا ،چوری ، اور شراب خواری ہوجاتی ہے ؟ لیکن ان کے دل میں خوف الٰہی ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اے صدیق کی لڑکی یہ نہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں، صدقے کرتے ہیں ، لیکن قبول نہ ہونے سے ڈرتے ہیں ، یہی ہیں جو نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں (ترمذی ) اس آیت کی دوسری قرأت یاتون ما اتوا بھی ہے یعنی کرتے ہیں جو کرتے ہیں لیکن دل ان کے ڈرتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے پاس ابوعاصم گئے ۔ آپ نے مرحبا کہا اور کہا برابر آتے کیوں نہیں ہو ؟ جواب دیا اس لئے کہ کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو لیکن آج میں ایک آیت کے الفاظ کی تحقیق کے لئے حاضر ہوا ہوں آیت (یوتون ما اتوا ہیں یا یاتون مااتوا) ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیا ہونا تمہارے لئے مناسب ہے میں نے کہا آخر کے الفاظ اگر ہوں تو گویا میں نے ساری دنیا پالی ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوشی مجھے ہوگی آپ نے فرمایا پھر تم خوش ہوجاؤ ۔ واللہ میں نے اسی طرح انہی الفاظ کو پڑھتے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے ۔ اس کا ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے ۔ ساتوں مشہور قرأتوں اور جمہور کی قرأت میں وہی ہے جو موجودہ قرآن میں ہے اور معنی کی رو سے بھی زیادہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہیں سابق قرار دیا ہے اور اگر دوسری قرأت کو لیں تو یہ سابق نہیں بلکہ ہیں واللہ اعلم ۔