أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ ﴿105﴾
‏ [جالندھری]‏ کیا تم کو میری آیتیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں؟ (نہیں) تم ان کو سنتے تھے (اور) جھٹلاتے تھے ‏
تفسیر ابن كثیر
مکمل آگاہی کے بعد بھی محروم ہدایت 
کافروں کو ان کے کفر اور گناہوں پر ایمان نہ لانے پر قیامت کے دن جو ڈانٹ ڈپٹ ہوگی ، اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ان سے اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ میں نے تمہاری طرف رسول بھیجے تھے ، تم پر کتابیں نازل فرمائی تھیں ، تمہارے شک زائل کردئیے تھے تمہاری کوئی حجت باقی نہیں رکھی تھی جیسے فرمان ہے کہ "تاکہ لوگوں کا عزررسولوں کے آنے کے بعد باقی نہ رہے"۔ اور فرمایا "ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے" ایک اور روایت میں ہے "جب جہنم میں کوئی جماعت جائے گی اس سے وہاں کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے آگاہ کرنے والے آئے نہ تھے" ؟ اس وقت یہ حرماں نصیب لوگ اقرار کریں گے کہ بیشک تیری حجت پوری ہوگئی تھی لیکن ہم اپنی بدقسمتی اور سخت دلی کے باعث درست نہ ہوئے اپنی گمراہی پر اڑ گئے اور راہ راست پر نہ چلے ۔ اللہ اب تو ہمیں پھر دنیا کی طرف بھیج دے اگر اب ایسا کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں اور مستحق سزا ہیں ، جیسے فرمان ہے آیت (فاعترفنا بذنوبنا فہل الی خروج من سبیل) ہمیں اپنی تقصیروں کا اقرار ہے کیا اب کسی طرح بھی چھٹکارے کی راہ مل سکتی ہے ؟ لیکن جواب دیا جائے گا کہ اب سب راہیں بند ہیں ۔ دار فنا ہوگیا ، اب دار جزا ہے ۔ توحید کے وقت شرک کیا ، اب پچھتانے سے کیا حاصل ؟