لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ ﴿12﴾
‏ [جالندھری]‏ جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا؟ اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
اخلاق و آداب کی تعلیم
ان آیتوں میں اللہ تبارک و تعالٰی مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی شان میں جو کلمات منہ سے نکالے وہ ان کی شایان شان نہ تھے بلکہ انہیں چاہئے تھا کہ یہ کلام سنتے ہی اپنی شرعی ماں کے ساتھ کم از کم وہ خیال کرتے جو اپنے نفسوں کے ساتھ کرتے، جب کہ وہ اپنے آپ کو بھی ایسے کام کے لائق نہ پاتے تو شان ام المومنین کو اس سے بہت اعلیٰ اور بالا جانتے۔ ایک واقعہ بھی بالکل اسی طرح کا ہوا تھا۔ حضرت ابو ایوب خالد بن زید انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ان کی بیوی صاحبہ ام ایوب رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کہا کہ کیا آپ نے وہ بھی سنا جو حضرت عائشہ کی نسبت کہا جا رہا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اور یہ یقینا جھوٹ ہے۔ ام ایوب تم ہی بتاؤ کیا تم کبھی ایسا کرسکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ نعوذ باللہ ناممکن۔ آپ نے فرمایا پس حضرت عائشہ تو تم سے کہیں افضل اور بہتر ہیں۔ پس جب آیتیں اتریں تو پہلے تو بہتان بازوں کا ذکر ہوا۔ یعنی حضرت حسان رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ساتھیوں کا پھر ان آیتوں کا ذکر ہوا۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کی بیوی صاحبہ کی اس بات چیت کا جو اوپر مذکور ہوئی۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ مقولہ حصرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کا تھا ۔ الغرض مومنوں کو صاف باطن رہنا چاہئے اور اچھے خیال کرنے چاہئیں بلکہ زبان سے بھی ایسے واقعہ کی تردید اور تکذیب کردینی چاہئے۔ اس لئے کہ جو کچھ واقعہ گزرا اس میں شک شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی۔ ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا کھلم کھلا سواری پر سوار دن دیہاڑے بھرے لشکر میں پہنچی ہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اگر اللہ نہ کرے خاکم بدہن کوئی بھی ایسی بات ہوتی تو یہ اس طرح کھلے بندوں عام مجمع میں نہ آتے بلکہ خفیہ اور پوشیدہ طور پر شامل ہو جاتے جو کسی کو کانوں کان خبر تک نہ پہنچے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ بہتان بازوں کی زبان نے جو قصہ گھڑا وہ محض جھوٹ بہتان اور افترا ہے۔ جس سے انہوں نے اپنے ایمان اور اپنی عزت کو غارت کیا۔ پھر فرمایا کہ ان بہتان بازوں نے جو کچھ کہا اپنی سچائی پر چار گواہ واقعہ کے کیوں پیش نہیں کئے؟ اور جب کہ یہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو شرعاً اللہ کے نزدیک وہ جھوٹے ہیں۔ فاسق و فاجر ہیں۔