وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ﴿20﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اسکی رحمت نہ ہوتی (تو کیا کچھ نہ ہوتا مگر وہ کریم ہے) اور یہ کہ خدا نہایت مہربان و رحیم ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
شیطانی راہوں پر مت چلو
یعنی اگر اللہ کا فضل وکرم ، لطف ورحم نہ ہوتا تو اس وقت کوئی اور ہی بات ہو جاتی مگر اس نے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرمالی ۔ پاک ہونے والوں کو بذریعہ حد شرعی کے پاک کر دیا ۔ شیطانی طریقوں پر شیطانی راہوں میں نہ چلو ، اس کی باتیں نہ مانو۔ وہ تو برائی کا ، بدی کا، بدکاری کا، بےحیائی کا حکم دیتا ہے ۔ پس تمہیں اس کی باتیں ماننے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اس کے عمل سے بچنا چاہئے اس کے وسوسوں سے دور رہنا چاہے ۔ اللہ کی ہر نافرمانی میں قدم شیطان کی پیروی ہے ۔ ایک شخص نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ میں نے فلاں چیز کھانے کی قسم کھالی ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ شیطان کا بہکاوا ہے ، اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور اسے کھالو ۔ ایک شخص نے حضرت شعبی سے کہا کہ میں نے اپنے بچے کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہے ۔ آپ نے فرمایا ، یہ شیطانی حرکت ہے ، ایسا نہ کرو ، اس کے بدلے ایک بھیڑ ذبح کرو ۔ ابو رافع رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں ایک مرتبہ میرے اور میری بیوی کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔ وہ بگڑ کر کہنے لگیں کہ ایک دن وہ یہودیہ ہے اور ایک دن نصرانیہ ہے اور اس کے تمام غلام آزاد ہیں ، اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے ۔ میں نے آکر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا یہ شیطانی حرکت ہے ۔ زینب بن ام سلمہ جو اس وقت سب سے زیادہ دینی سمجھ رکھنے والی عورت تھیں ، انہوں نے بھی یہی فتوی دیا اور عاصم بن عمرو کی بیوی نے بھی یہی بتایا ۔ پھر فرماتا ہے اگر اللہ کا فضل وکرم نہ ہوتا تو تم میں سے ایک بھی اپنے آپ کو شرک وکفر ، برائی اور بدی سے نہ بچا سکتا ۔ یہ رب کا احسان ہے کہ وہ تمہیں توبہ کی توفیق دتیا ہے پھر تم پر مہربانی سے رجوع کرتا ہے اور تمہیں پاک صاف بنا دیتا ہے ۔ اللہ جسے چاہے پاک کرتا ہے اور جسے چاہے ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے ۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کی باتیں سننے والا ، ان کے احوال کو جاننے والا ہے ۔ ہدایت یاب اور گمراہ سب اس کی نگاہ میں ہیں اور اس میں بھی اس حکیم مطلق کی بےپایاں حکمت ہے ۔