وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿22﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اور صاحب) وسعت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے ان کو چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ خدا تم کو بخش دے؟ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
دولت مند افراد سے خطاب 
تم میں سے جو کشادہ روزی والے ، صاحب مقدرت ہیں ۔ صدقہ اور احسان کرنے والے ہیں انہیں اس بات کی قسم نہ کھانی چاہئے کہ وہ اپنے قرابت داروں ، مسکینوں ، مہاجروں کو کچھ دیں گے ہی نہیں ۔ اس طرح انہیں متوجہ فرما کر پھر اور نرم کرنے کے لئے فرمایا کہ ان کی طرف سے کوئی قصور بھی سرزد ہوگیا ہو تو انہیں معاف کر دینا چاہئے ۔ ان سے کوئی ایذاء یا برائی پہنچی ہو تو ان سے درگزر کر لینا چاہئے ۔ یہ بھی اللہ تعالٰی کا حکم وکرم اور لطف رحم ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو بھلائی کا ہی حکم دیتا ہے ۔ یہ آیت حضرت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں اتری ہے جب کہ آپ نے حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ کسی قسم کا سلوک کرنے کی قسم کھالی تھی کیونکہ بہتان صدیقہ میں یہ بھی شامل تھے ۔ جیسے کہ پہلے کی آیتوں کی تفسیر میں یہ واقعہ گزر چکا ہے تو جب حقیقت اللہ تعالٰی نے ظاہر کر دی ، ام المومنین بری ہوگئیں ، مسلمانوں کے دل روشن ہوگئے ، مومنوں کی توبہ قبول ہوگئی ، تہمت رکھنے والوں میں سے بعض کو حد شرعی لگ چکی ۔ تو اللہ تعالٰی نے حضرت صدیق کو حضرت مسطح کی طرف متوجہ فرمایا جو آپ کی خالہ صاحبہ کے فرزند تھے اور مسکین شخص تھے ۔ حضرت صدیق ہی ان کی پرورش کرتے رہتے تھے ، یہ مہاجر تھے لیکن اس بارے میں اتفاقیہ زبان کھل گئی تھی ۔ انہیں تہمت کی حد لگائی گئی تھی ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سخاوت مشہور تھی ۔ کیا اپنے کیا غیر سب کے ساتھ آپ کا حسن سلوک عام تھا۔ آیت کے یہ خصوصی الفاظ حضرت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کان میں پڑے کہ کیا تم بخشش الہی کے طالب نہیں ہو ؟ آپ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ ہاں قسم ہے اللہ کی ہماری تو عین چاہت ہے کہ اللہ ہمیں بخشے اور اسی وقت سے مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے ، جاری کر دیا ۔ گویا ان آیتوں میں ہمیں تلقین ہوئی کہ جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تقصیریں معاف ہوجائیں ۔ ہمیں چاہئے کہ دوسروں کی تقصیروں سے بھی درگزر کر لیا کریں ۔ یہ بھی خیال میں رہے کہ جس طرح آپ نے پہلے یہ فرمایا تھا کہ واللہ میں اس کے ساتھ کبھی بھی سلوک نہ کروں گا ۔ اب عہد کیا کہ واللہ میں اس سے کبھی بھی اس کا مقررہ روزینہ نہ روکوں گا ۔ سچ ہے صدیق صدیق ہی تھے رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔