يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ۚ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿27﴾
‏ [جالندھری]‏ مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لئے اور ان کو سلام کئے بغیر داخل نہ ہوا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے (اور ہم یہ نصیحت اس لئے کرتے ہیں کہ) شاید تم یاد رکھو ‏
تفسیر ابن كثیر
شرعی آداب 
شرعی ادب بیان ہو رہا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت مانگو ، جب اجازت ملے ، جاؤ پہلے سلام کرو ، اگر پہلی دفعہ کی اجازت طلبی پر جواب نہ ملے تو پھر اجازت مانگو ۔ تین مرتبہ اجازت چاہو اگر پھر بھی اجازت نہ ملے تو لوٹ جاؤ ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں حضرت عمر نے لوگوں سے کہا ! دیکھو عبداللہ بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آکر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خبر دی ۔ دوبارہ جب حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ ۔ میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا ۔ آپ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہہ دے ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جاکر کہا کہ میں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سنا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اجازت مانگی ۔ فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواب میں وعلیک السلام ورحمۃ اللہ تو کہہ دیا لیکن ایسی آواز سے کہ آپ نہ سنیں ۔ چنانچہ تین بار یہی ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے ۔ آپ جواب دیتے لیکن اس طرح کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنیں نہیں ۔ اس کے بعد آپ وہاں سے واپس لوٹ چلے ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ کے پیچھے لپکے ہوئے آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تمام آوازیں میرے کانوں میں پہنچ رہی تھیں ۔ میں نے ہر سلام کا جواب بھی دیا لیکن اس خیال سے کہ آپ کی دعائیں بہت ساری لوں اور زیادہ برکت حاصل کروں کہ جواب اس طرح نہ دیا آپ کو سنائی دے اب آپ چلئے ! تشریف رکھئے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گئے ۔ انہوں نے آپ کے سامنے کشمش لا کر رکھی آپ نے نوش فرمائیں اور فارغ ہو کر فرمانے لگے تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا ۔ فرشتے تم پر رحمت بھیج رہے ہیں ، تمہارے ہاں روزے داروں نے روزہ کھولا ۔ اور روایت میں ہے کہ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آہستہ جواب دیا تو ان کے لڑکے حضرت قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت کیوں نہیں دیتے ؟ آپ نے فرمایا خاموش رہو دیکھو حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سلام کہیں گے ، ہمیں دوبارہ آپ کی دعا ملے گی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ یہاں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے زعفران یا ورس سے رنگی ہوئی ایک چادر پیش کی ، جسے آپ نے جسم مبارک پر لپیٹ لی ، پھر ہاتھ اٹھا کر حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے دعا کی کہ اے اللہ سعد بن عبادہ کی آل پر اپنے درود ورحمت نازل فرما پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں کھانا تناول فرمایا جب واپس جانے کا ارادہ کیا تو حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے گدھے پر پالان کس لائے ۔ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے لئے پیش کیا اور اپنے لڑکے قیس سے کہا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاؤ ۔ یہ ساتھ چلے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا قیس آؤ تم بھی سوار ہو جاؤ انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے تو یہ نہ ہوسکے گا ۔ آپ نے فرمایا دو باتوں میں سے ایک تمہیں ضرور کرنی ہوگی یا تو میرے ساتھ اس جانور پر سوار ہوجاؤ یا واپس چلے جاؤ حضرت قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے واپس جانا منظور کر لیا ۔ یہ یاد رہے کہ اجازت مانگنے والا گھر کے دروازے کے بالمقابل کھڑا نہ رہے بلکہ دائیں بائیں قدرے کھسک کے کھڑا رہے ۔ کیونکہ ابو داؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے ہاں جاتے تو اس کے دروازے کے بالکل سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ ادھر یا ادھر قدرے دور ہو کر زور سے سلام کہتے اس وقت تک دروازوں پر پردے بھی نہیں ہوتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے دروازے کے سامنے ہی کھڑے ہو کر ایک شخص نے اجازت مانگی تو آپ نے اسے تعلیم دی کہ نظر نہ پڑے اسی لیے تو اجازت مقرر کی گئی ہے ۔ پھر دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر آواز دینے کے کیا معنی ؟ یا تو ذرا سا ادھر ہو جاؤ یا ادھر ۔ 
ایک اور حدیث میں ہے کہ اگر کوئی تیرے گھر میں تیری اجازت کے بغیر جھانکنے لگے اور تو اسے کنکر مارے جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تجھے کوئی گناہ نہ ہوگا ۔ حضرت جابر ایک مرتبہ اپنے والد مرحوم کے قرضے کی ادائیگی کے فکر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، دروازہ پر دستک دی تو آپ نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ میں ہوں۔ آپ نے فرمایا " میں میں " گویا آپ نے ناپسند فرمایا کیونکہ "میں " کہنے سے یہ تو معلوم نہیں ہوسکتاکون ہے جب تک کے نام یا مشہور کنیت نہ بتائی جائے " میں " تو ہر شخص اپنے لئے کہہ سکتا ہے ۔ پس اجازت طلبی کا اصلی مقصود حاصل نہیں ہو سکتا۔ استذان استناس ایک ہی بات ہے ۔ ابن عباس فرماتے تھے تستانسوا کاتبوں کی غلطی ہے ۔ تستاذنوا لکھنا چاہئے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ہی قرأت تھی اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بھی ۔ لیکن یہ بہت غریب ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اپنے مصحف میں حتی تسلموا علی اہلہا وتستاذنوا ہے ۔ صفوان بن امیہ جب مسلمان ہوگئے تو ایک مرتبہ کلدہ بن حنبل کو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ آپ اس وقت وادی کے اونچے حصے میں تھے یہ سلام کئے بغیر اور اجازت لئے بغیر ہی آپ کے پاس پہنچ گئے آپ نے فرمایا لوٹ جاؤ ۔ اور کہو السلام علیکم کیا میں آؤں ؟ اور حدیث میں ہے قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص آپ کے گھر آیا اور کہنے لگا میں اندر آجاؤں ؟ آپ نے اپنے غلام سے فرمایا جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ پہلے تو سلام کرے پھر دریافت کرے ۔ اس شخص نے یہ سن لیا اور اسی طرح سلام کر کے اجازت چاہی آپ نے اجازت دے دی اور وہ اندر گئے ۔ ایک اور حدیث میں ہے آپ نے اپنی خادمہ سے فرمایا تھا (ترمذی) اور حدیث میں ہے کلام سے پہلے سلام ہونا چاہئے ۔ یہ حدیث ضعیف ہے ، ترمذی میں موجود ہے ۔ 
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ قضا حاجت سے فارغ ہو کر آرہے تھے لیکن دھوپ کی تاب نہ لا سکے تو ایک قریشی کی جھونپڑی کے پاس پہنچ کر فرمایا السلام علیکم کیا میں اندر آجاؤں اس نے کہا سلامتی سے آجاؤ آپ نے پھر یہی کہا اس نے پھر یہی جواب دیا ۔ آپ کے پاؤں جل رہے تھے کبھی اس قدم پر سہارا لیتے ، کبھی اس قدم پر ، فرمایا یوں کہو کہ آجاؤ ، اب آپ اندر تشریف لے گئے ۔ حضرت عائشہ کے پاس چار عورتیں گئیں ۔ اجازت چاہی کہ کیا ہم آجائیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ! تم میں جو اجازت کا طریقہ جانتی ہو اسے کہو کہ وہ اجازت لے ۔ تو ایک عورت نے پہلے سلام کیا ، پھر اجازت مانگی ، حضرت عائشہ نے اجازت دے دی ۔ پھر یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اپنی ماں اور بہنوں کے پاس بھی جانا ہو تو ضرور اجازت لے لیا کرو ۔ انصار (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی ایک عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں بعض دفعہ گھر میں اس حالت میں ہوتی ہوں کہ اس وقت اگر میرے باپ بھی آجائیں یا میرا اپنا لڑکا بھی اس وقت آجائے تو مجھے برا معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ حالت ایسی نہیں ہوتی کہ اس وقت کسی کی بھی نگاہ مجھ پر پڑے تو میں ناخوش نہ ہوؤں ۔ اور گھر والوں میں سے کوئی آہی جاتا ہے اس وقت یہ آیت اتری ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ تین آیتیں ہیں کہ لوگوں نے ان پر عمل چھوڑ رکھا ہے ایک تو یہ کہ اللہ فرماتا ہے تم میں سے سب سے زیادہ بزرگی والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہو ۔ اور لوگوں کا خیال یہ ہے کہ سب سے بڑا وہ ہے جو سب سے زیادہ امیر ہو ۔ اور ادب کی آیتیں بھی لوگ چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ حضرت عطار حمۃ اللہ علیہ نے پوچھا ۔ میرے گھر میں میری یتیم بہنیں ہیں جو ایک ہی گھر میں رہتی ہیں اور میں ہی انہیں پالتا ہوں کیا ان کے پاس جانے کے لئے بھی مجھے اجازت کی ضرورت ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ضرور اجازت طلب کیا کرو ، میں نے دوبارہ یہی سوال کیا کہ شاید کوئی رخصت کا پہلو نکل آئے آپ نے فرمایا کیا تم انہیں ننگا دیکھنا پسند کروگے ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا پھر ضرور اجازت مانگا کرو ۔ میں نے یہی سوال دوہرایا تو آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کا حکم مانے گا یا نہیں ؟ میں نے کہا ہاں مانوں گا ۔ آپ نے فرمایا پھر بغیر اطلاع ہرگز ان کے پاس بھی نہ جاؤ ۔ حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں محرمات ابدیہ پر ان کی عریانی کی حالت میں نظر پڑجائے اس سے زیادہ برائی میرے نزدیک اور کوئی نہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ اپنی ماں کے پاس بھی گھر میں بغیر اطلاع کے نہ جاؤ ۔ عطار حمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ بیوی کے پاس بھی بغیر اجازت کے نہ جائے ؟ فرمایا یہاں اجازت کی ضرورت نہیں۔ یہ قول بھی محمول ہے اس پر کہ اس سے اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں لیکن تاہم اطلاع ضرور ہونی چاہئے ممکن ہے وہ اس وقت ایسی حالت میں ہو کہ وہ نہیں چاہتی کہ خاوند بھی اس حالت میں اسے دیکھے ۔ حضرت زینب فرماتی ہیں کہ میرے خاوند حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ جب میرے پاس گھر میں آتے تو کھنکار کر آتے ۔ کبھی بلند آواز سے دروازے کے باہر کسی سے باتیں کرنے لگتے تاکہ گھر والوں کو آپ کی اطلاع ہوجائے چنانچہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے تستانسوا کے معنی بھی یہی کئے ہیں کہ کھنکار دے یا جوتیوں کی آہٹ سنا دے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ سفر سے رات کے وقت بغیر اطلاع گھر آجانے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ کیونکہ اس سے گویا گھر والوں کی خیانت کا پوشیدہ طور پر ٹٹولنا ہے ۔ آپ نے ایک مرتبہ ایک سفر سے صبح کے وقت آئے تو حکم دیا کہ بستی کے پاس لوگ اتریں تاکہ مدینے میں خبر مشہور ہوجائے ، شام کو اپنے گھروں میں جانا ۔ اس لئے کہ اس اثناء میں عورتیں اپنی صفائی ستھرائی کرلیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا سلام تو ہم جانتے ہیں لیکن استیناس کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ یا الحمد اللہ یا اللہ اکبر بلند آواز سے کہہ دینا یا کھنکار دینا جس سے گھر والے معلوم کرلیں کہ فلاں آرہا ہے 
حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تین بار کی اجازت اس لئے مقرر ہے کی ہے کہ پہلی دفعہ میں تو گھروالے معلوم کرلیں کہ فلاں ہے ۔ دوسری دفعہ میں وہ سنبھل جائیں اور ہوشیار ہوجائیں ۔ تیسری مرتبہ میں اگر وہ چاہیں اجازت دیں چاہیں منع کردیں ۔ جب اجازت نہ ملے پھر دروازے پر ٹھہرا رہنا برا ہے ، لوگوں کو اپنے کام اور اشغال ایسے ضروری ہوتے ہیں کہ وہ اس وقت اجازت نہیں دے سکتے ۔ مقاتل میں حیان فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں دستور نہ تھا ، ایک دوسرے سے ملتے تھے لیکن سلام نہ کرتے تھے ۔ کسی کے ہاں جاتے تھے تو اجازت نہیں لیتے تھے یونہی جا دھمکے پھر کہہ دیا کہ میں آگیا ہوں ۔ تو بسا اوقات یہ گھر والے پر گراں گزرتا ۔ ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنے گھر میں کبھی ایسے حال میں ہوتا ہے کہ اسمیں اس کا آنا بہت برا لگتا ۔ اللہ تعالٰی نے یہ تمام برے دستور اچھے آداب سکھا کر بدل دئیے ۔ اسی لئے فرمایا کہ یہی طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اس میں مکان والے کو آنے والے کو دونوں کو راحت ہے ۔ یہ چیزیں تمہاری نصیحت اور خیر خواہی کی ہیں ۔ اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو بے اجازت اندر نہ جاؤ ۔ کیونکہ یہ دوسرے کی ملک میں تصرف کرنا ہے جو ناجائز ہے ۔ مالک مکان کو حق ہے اگر وہ چاہے اجازت دے ، چاہے روک دے ۔ اگر تمہیں کہا جائے ، لوٹ جاؤ تو تمہیں واپس چلا جانا چاہے ۔ اس میں برا ماننے کی بات نہیں بلکہ یہ تو بڑا ہی پیارا طریقہ ہے ۔ بعض مہاجرین رضی اللہ عنہم اجمعین افسوس کیا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی پوری عمر میں اس وقت آیت پر عمل کرنے کا موقعہ نہیں ملا کہ کوئی ہم سے کہتا لوٹ جاؤ اور ہم اس آیت کے ماتحت وہاں سے واپس ہو جاتے ، اجازت نہ ملنے پر دروازے پر ٹھہرے رہنا بھی منع فرما دیا ۔ اللہ تمہارے عملوں سے باخبر ہے ۔ یہ آیت اگلی آیت سے مخصوص ہے اس میں ان گھروں میں بلا اجازت جانے کی رخصت ہے جہاں کوئی نہ ہو اور وہاں اس کا کوئی سامان وغیرہ ہو ۔ جیسے کہ مہمان خانہ وغیرہ ۔ یہاں جب پہلی مربتہ اجازت مل گئی پھر ہربار کی اجازت ضروری نہیں ۔ تو گویا یہ آیت پہلی آیت سے استثنا ہے ۔ اسی طرح کی ایسے تاجروں کے گودام مسافر خانے وغیرہ ۔ اور اول بات زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم ۔ زید کہتے ہیں مراد اس سے بیت الشعر ہے ۔