وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿32﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں (نکاح کر دیا کرو) اگر وہ مفلس ہوں گے تو خدا ان کو اپنے فضل سے خوشحال کر دے گا اور خدا (بہت) وسعت والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
نکاح اور شرم وحیا کی تعلیم 
اس میں اللہ تعالٰی نے بہت سے احکام بیان فرما دئیے ہیں اولا نکاح کا ۔ علماء کی جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اس پر نکاح کرنا واجب ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اے نوجوانو! تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتاہو ، اسے نکاح کر لینا چاہئے ۔ نکاح نظر کو نیچی رکھنے والا شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے طاقت نہ ہو وہ لازمی طور پر روزے رکھے ، یہی اس کے لیے خصی ہونا ہے (بخاری مسلم ) سنن میں ہے آپ فرماتے ہیں زیادہ اولاد جن سے ہونے کی امید ہو ان سے نکاح کرو تاکہ نسل بڑھے میں تمہارے ساتھ اور امتوں میں فخر کرنے والا ہوں ۔ ایک روایت میں ہے یہاں تک کہ کچے گرے ہوئے بچے کی گنتی کے ساتھ بھی ۔ ایامی جمع ہے ایم کی ۔ جوہری کہتے ہیں اہل لغت کے نزدیک بےبیوی کا مرد اور بےخاوند کی عورت کو " ایم " کہتے ہیں ، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو ۔ پھر مزید رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ مسکین بھی ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل وکرم سے مالدار بنا دے گا۔ خواہ وہ آزاد ہوں خواہ غلام ہوں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا قول ہے تم نکاح کے بارے میں اللہ کا حکم مانو، وہ تم سے اپناوعدہ پورا کرے گا ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں امیری کو نکاح میں طلب کرو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، تین قسم کے لوگوں کی مدد کا اللہ کے ذمے حق ہے ۔ نکاح کرنے والا جو حرام کاری سے بچنے کی نیت سے نکاح کرے ۔ وہ لکھت لکھ دینے والا غلام جس کا ارادہ ادائیگی کا ہو ، وہ غازی جو اللہ کی راہ میں نکلا ہو ۔ (ترمذی وغیر) اسی کی تایئد میں وہ روایت ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا نکاح ایک عورت سے کرا دیا ، جس کے پاس سوائے تہبند کے اور کچھ نہ تھا یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی بھی اس کے پاس سے نہیں نکلی تھی اس فقیری اور مفلسی کے باوجود آپ نے اس کا نکاح کر دیا اور مہر یہ ٹھہرایا کہ جو قرآن اسے یاد ہے ، اپنی بیوی کو یاد کرا دے ۔ یہ اسی بنا پر کہ نظریں اللہ کے فضل وکرم پر تھیں کہ وہ مالک انہیں وسعت دے گا اور اتنی روزی پہنچائے گا کہ اسے اور اس کی بیوی کو کفالت ہو ۔ ایک حدیث اکثر لوگ وارد کیا کرتے ہیں کہ فقیری میں بھی نکاح کیا کرو اللہ تمہیں غنی کر دے گا میری نگاہ سے تو یہ حدیث نہیں گزری ۔ نہ کسی قوی سند سے نہ ضعیف سند سے ۔ اور نہ ہمیں ایسی لا پتہ روایت کے اس مضمون میں کوئی ضرورت ہے کیونکہ قرآن کی اس آیت اور ان احادیث میں یہ چیز موجود ہے ، فالحمد للہ ۔ پھر حکم دیا کہ جنہیں نکاح کامقدور نہیں وہ حرام کاری سے بچیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے جوان لوگو ! تم میں سے جو نکاح کی وسعت رکھتے ہوں ، وہ نکاح کرلیں یہ نگاہ نیچی کرنے والا ، شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے اس کی طاقت نہ ہو وہ اپنے ذمے روزوں کا رکھنا ضروری کر لے یہی اس کے لئے خصی ہونا ہے ۔ یہ آیت مطلق ہے اور سورہ نساء کی آیت اس سے خاص ہے یعنی یہ فرمان آیت (ومن یستطع منکم طولا) پس لونڈیوں سے نکاح کرنے سے صبر کرنا بہتر ہے ۔ اس لئے کہ اس صورت میں اولاد پر غلامی کا حرف آتا ہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو مرد کسی عورت کو دیکھے اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہو اسے چاہئے کہ اگر اس کی بیوی موجود ہو تو اس کے پاس چلا جائے ورنہ اللہ کی مخلوق میں نظریں ڈال اور صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اسے غنی کر دے ۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی ان لوگوں سے فرماتا ہے جو غلاموں کے مالک ہیں کہ اگر ان کے غلام ان سے اپنی آزادگی کی بابت کوئی تحریر کرنی چاہیں تو وہ انکار نہ کریں ۔ غلام اپنی کمائی سے وہ مال جمع کر کے اپنے آقا کو دے دے گا اور آزاد ہو جائے گا ۔ اکثر علماء فرماتے ہیں یہ حکم ضروری نہیں فرض و واجب نہیں بلکہ بطور استحباب کے اور خیر خواہی کے ہے ۔ آقا کو اختیار ہے کہ غلام جب کوئی ہنر جانتا ہو اور وہ کہے کہ مجھ سے اسی قدر روپیہ لے لو اور مجھے آزاد کر دو تو اسے اختیار ہے خواہ اس قسم کا غلام اس سے اپنی آزادگی کی بابت تحریر چاہے وہ اس کی بات کو قبول کر لے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں ، حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا غلام سیرین نے جو مالدار تھا ان سے درخواست کی کہ مجھ سے میری آزادی کی کتابت کر لو ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انکار کر دیا ، دربار فاروقی میں مقدمہ گیا ، آپ نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حکم دیا اور ان کے نہ ماننے پر کوڑے لگوائے اور یہی آیت تلاوت فرمائی یہاں تک کہ انہوں نے تحریر لکھوا دی ۔ (بخاری) عطاء رحمۃ اللہ علیہ سے دونوں قول مروی ہیں ۔ امام شافعی رحمۃاللہ علیہ کا قول یہی تھا لیکن نیا قول یہ ہے کہ واجب نہیں ۔ کیونکہ حدیث میں ہے مسلمان کا مال بغیر اس کی دلی خوشی کے حلال نہیں ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ واجب نہیں ۔ میں نے نہیں سنا کہ کسی امام نے کسی آقا کو مجبور کیا ہو کہ وہ اپنے غلام کی آزادگی کی تحریر کر دے ، اللہ کا یہ حکم بطور اجازت کے ہے نہ کہ بطور وجوب کے ۔ یہی قول امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ وغیرہ کا ہے ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مختار قول وجوب کا ہے ۔ خیر سے مراد امانت داری ، سچائی ، مال اور مال کے حاصل کرنے پر قدرت وغیرہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر تم اپنے غلاموں میں جو تم سے مکاتب کرنا چاہیں ، مال کے کمانے کی صلاحیت دیکھو تو ان کی اس خواہش کو پوری کرو ورنہ نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ لوگوں پر اپنا بوجھ ڈالیں گے یعنی ان سے سوال کریں گے اور رقم پوری کرنا چاہیں گے اس کے بعد فرمایا ہے کہ انہیں اپنے مال میں سے کچھ دو ۔ یعنی جو رقم ٹھیر چکی ہے ، اس میں سے کچھ معاف کر دو ۔ چوتھائی یا تہائی یا آدھا یا کچھ حصہ ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ مال زکوۃ سے ان کی مدد کرو آقا بھی اور دوسرے مسلمان بھی اسے مال زکوۃ دیں تاکہ وہ مقرر رقم پوری کر کے آزاد ہو جائے ۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ پر برحق ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبہ کیا تھا جب وہ اپنی رقم کی پہلی قسط لیکر آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ اپنی اس رقم میں دوسروں سے بھی مدد طلب کرو اس نے جواب دیا کہ امیرالمؤمنین آپ آخری قسط تک تو مجھے ہی محنت کرنے دیجئے ۔ فرمایا نہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کے اس فرمان کو ہم چھوڑ نہ بیٹھیں کہ انہیں اللہ کا وہ مال دو جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے ۔ پس یہ پہلی قسطیں تھیں جو اسلام میں ادا کی گئیں ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عادت تھی کہ شروع شروع میں آپ نہ کچھ دیتے تھے نہ معاف فرماتے تھے کیونکہ خیال ہوتا تھا کہ ایسا نہ ہو آخر میں یہ رقم پوری نہ کرسکے تو میرا دیا ہوا مجھے ہی واپس آجائے ۔ ہاں آخری قسطیں ہوتیں تو جو چاہتے اپنی طرف سے معاف کر دیتے ۔ ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ چوتھائی چھوڑ دو ۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنی لونڈیوں سے زبردستی بدکاریاں نہ کراؤ ۔ جاہلیت کے بدترین طریقوں میں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی لونڈیوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ زنا کاری کرائیں اور وہ رقم اپنے مالکوں کو دیں ۔ اسلام نے آکر اس بد رسم کو توڑا ۔ منقول ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کے بارے میں اتری ہے ، وہ ایسا ہی کرتا تھا تاکہ روپیہ بھی ملے اور لونڈی زادوں سے شان ریاست بھی بڑھے ۔ اس کی لونڈی کا نام معاذہ تھا ۔ اور روایت میں ہے اس کا نام 
مسیکہ تھا ۔ اور یہ بدکاری سے انکار کرتی تھی ۔ جاہلیت میں تو یہ کام چلتا رہا یہاں تک اسے ناجائز اولاد بھی ہوئی لیکن اسلام لانے کے بعد اس نے انکار کردیا ، اس پر اس منافق نے اسے زدوکوب کیا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ مروی ہے کہ بدر کا ایک قریشی قیدی عبداللہ بن ابی کے پاس تھا وہ چاہتا تھا کہ اس کی لونڈی سے ملے ، لونڈی بوجہ اسلام کے حرام کاری سے بچتی تھی ۔ عبداللہ کی خواہش تھی کہ یہ اس قریشی سے ملے ، اس لئے اسے مجبور کرتا تھا اور مارتا پیٹتا تھا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سردار منافقین اپنی اس لونڈی کو اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھیج دیا کرتا تھا ۔ اسلام کے بعد اس لونڈی سے جب یہ ارادہ کیا گیا تو اس نے انکار کر دیا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اپنی یہ مصیبت بیان کی ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دربار محمدی میں یہ بات پہنچائی ۔ آپ نے حکم دیا کہ اس لونڈی کو اس کے ہاں نہ بھیجو ۔ اس نے لوگوں میں غل مچانا شروع کیا کہ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری لونڈیوں کو چھین لیتا ہے اس پر یہ آسمانی حکم اترا ۔ ایک روایت میں ہے کہ مسیکہ اور معاذ دو لونڈیاں دو شخصوں کی تھیں ، جو ان سے بدکاری کراتے تھے ۔ اسلام کے بعد مسیکہ اور اس کی ماں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ، اس پر یہ آیت اتری ۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ لونڈیاں پاک دامنی کا ارادہ کریں اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اگر ان کا ارادہ یہ نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں کیونکہ اس وقت واقعہ یہی تھا اس لئے یوں فرمایا گیا ۔ پس اکثریت اور غلبہ کے طور پر یہ فرمایا گیا ہے کوئی قید اور شرط نہیں ہے ۔ اس سے غرض ان کی یہ تھی کہ مال حاصل ہو ، اولادیں ہوں جو لونڈیاں غلام بنیں۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگانے کی اجرت ، بدکاری کی اجرت ، کاہن کی اجرت سے منع فرمادیا ۔ ایک اور روایت میں ہے زنا کی خرچی اور پچھنے لگانے والی کی قیمت اور کتے کی قیمت خبیث ہے۔پھر فرماتا ہے جو شخص ان لونڈیوں پر جبر کرے تو انہیں تو اللہ بوجہ ان کی مجبوری بخش دے گا اور ان مالکوں کو جنہوں نے ان پر دباؤ زور زبردستی ڈالی تھی انہیں پکڑ لے گا ۔ اس صورت میں یہی گنہگار رہیں گے ۔ بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قرآت میں رحیم کے بعد آیت (واثمہن علی من اکرھھن) ہے ۔ یعنی اس حالت میں جبر اور زبردستی کرنے والوں پر گناہ ہے ۔ مرفوع حدیث میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے میری امت کی خطا سے ، بھول سے اور جن کاموں پر وہ مجبور کر دئیے جائیں ، ان پر زبردستی کی جائے ان سے درگزر فرمالیا ہے ۔ ان احکام کو تفصیل وار بیان کرنے کے بعد بیان ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے کلام قرآن کریم کی یہ روشن و واضح آیات تمہارے سامنے بیان فرما دیں ۔ اگلے لوگوں کے واقعات بھی تمہارے سامنے آچکے کہ ان کی مخالفت حق کا انجام کیا اور کیسا ہوا؟ وہ ایک افسانہ بنا دئے گئے اور آنے والوں کے لئے عبرتناک واقعہ بنا دیئے گئے کہ متقی ان سے عبرت حاصل کریں اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے تھے ، قرآن میں تمہارے اختلاف کے فیصلے موجود ہیں ۔ تم سے پہلے زمانہ کے لوگوں کی خبریں موجود ہیں ۔ بعد میں ہونے والے امور کے احوال کا بیان ہے ۔ یہ مفصل ہے بکواس نہیں اسے جو بھی بےپرواہی سے چھوڑے گا ، اسے اللہ برباد کر دے گا اور جو اس کے سوا دوسری کتاب میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کر دے گا ۔