وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ ۚ وَمَا أُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ ﴿47﴾
‏ [جالندھری]‏ اور (بعض لوگ) کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور رسول پر ایمان لائے اور (ان کا) حکم مان لیا پھر اس کے بعد ان میں سے ایک فرقہ پھر جاتا ہے اور یہ لوگ صاحب ایمان ہی نہیں ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
منافق کی زبان اور ، دل 
منافقوں کا حل بیان ہو رہا ہے کہ زبان تو ایمان واطاعت کا اقرار کرتے ہیں لیکن دل سے اس کے خلاف ہیں ۔ عمل کچھ ہے قول کچھ ہے ۔ اس لئے کہ دراصل ایماندار نہیں ۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص بادشاہ کے سامنے بلوایا جائے اور وہ نہ جائے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے ۔ جب انہیں ہدایت کی طرف بلایا جاتا ہے ، قرآن وحدیث کے ماننے کو کہا جاتا ہے تو یہ منہ پھیر لیتے ہیں اور تکبر کرنے لگتے ہیں جیسے آیت (الم تر الی الذین یزعمون سے صدودا ) تک کی آیتوں میں بیان گزر چکا ہے ۔ ہاں اگر انہیں شرعی فیصلے میں اپنا نفع نظر آتا ہو تو لمبے لمبے کلمے پڑھتے ہوئے ، گردن ہلاتے ہوئے ہنسی خوش چلے آئیں گے اور جب معلوم ہوجائے کہ شرعی فیصلہ ان کی طبعی خواہش کے خلاف ہے ، دنیوں مفاد کے خلاف ہے تو حق کی طرف مڑ کر دیکھیں گے بھی نہیں ۔ پس ایسے لوگ پکے کافر ہیں ۔ اس لئے کہ تین حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ ان کے دلوں میں ہی بے ایمانی گھر کر گئی ہے یا انہیں اللہ کے دین کی حقانیت میں شکوک ہیں یاخوف ہے کہ کہیں اللہ اور رسول ان کا حق نہ مارلیں ، ان پر ظلم وستم کریں گے اور یہ تینوں صورتیں کفر کی ہیں ۔ اللہ ان میں سے ہر ایک کو جانتا ہے جو جیسا باطن میں ہے اس کے پاس وہ ظاہر ہے ۔ دراصل یہی لوگ جابر ہیں ، ظالم ہیں ، اللہ اور رسول اللہ اس سے پاک ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے کافر جو ظاہر میں مسلمان تھے ، بہت سے تھے ، انہیں جب اپنا مطلب قرآن وحدیث میں نکلتا نظر آتا تو خدمت نبوی میں اپنے جھگڑے پیش کرتے اور جب انہیں دوسروں سے مطلب براری نظر آتی تو سرکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آنے سے صاف انکار کر جاتے ۔ پس یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن دو شخصوں میں کوئی جھگڑا ہو اور وہ اسلامی حکم کے مطابق فیصلے کی طرف بلایا جائے اور وہ اس سے انکار کرے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے ۔ پھر سچے مومنوں کی شان بیان ہوتی ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی تیسری چیز کو داخل دین نہیں سمجھتے ۔ وہ تو قرآن وحدیث سنتے ہی ، اس کی دعوت کی ندا کان میں پڑتے ہی صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا یہ کامیاب ، بامراد اور نجات یافتہ لوگ ہیں ۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ جو بدری صحابی ہیں۔ انصاری ہیں ، انصاروں کے ایک سردار ہیں ، انہوں نے اپنے بھتیجے جنادہ بن امیہ سے بوقت انتقال فرمایا کہ آؤ مجھ سے سن لو کہ تمہارے ذمے کیا ہے ؟ سننا اور ماننا سختی میں بھی آسانی میں بھی ، خوشی میں بھی ناخوشی میں بھی ، اس وقت بھی جب کہ تیرا حق دوسرے کو دیا جارہا ہو، اپنی زبان کو عدل اور سچائی کے ساتھ سیدھی رکھ ۔ کام کے اہل لوگوں سے کام کو نہ چھین ، ہاں اگر کسی کھلی نافرمانی کا وہ حکم دیں تو نہ ماننا ۔ کتاب اللہ کے خلاف کوئی بھی کہے ہرگز نہ ماننا ۔ کتاب اللہ کی پیروی میں لگے رہنا ۔ ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اسلام بغیر اللہ کی اطاعت کے نہیں اور بہتری جو کچھ ہے وہ جماعت کی ، اللہ کی ، اس کے رسول کی ، خلیفۃ المسلمین کی اور عام مسلمانوں کی خیرخواہی میں ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اسلام کا مضبوط کڑا ، اللہ کی وحدانیت کی گواہی ، نماز کی پابندی ، زکوۃ کی ادائیگی اور مسلمانوں کے بادشاہ کی اطاعت ہے ۔ جو احادیث وآثار کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بارے میں اور مسلمان بادشاہوں کی ماننے کے بارے میں مروی ہیں وہ اس کثرت سے ہیں کہ سب یہاں کسی طرح بیان ہو ہی نہیں سکتیں ۔ جو شخص اللہ اور رسول کا نافرمان بن جائے جو حکم ملے بجا لائے جس چیز سے روک دیں رک جائے جو گناہ ہو جائے اس سے خوف کھاتا رہے آئندہ کے لئے اس سے بچتا رہے ایسے لوگ تمام بھلائیوں کو سمیٹنے والے اور تمام برائیوں سے بچ جانے والے ہیں ۔ دنیا اور آخرت میں وہ نجات یافتہ ہیں ۔