وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿63﴾
‏ [جالندھری]‏ اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
مومنوں کا کردار
اللہ کے مومن بندوں کے اوصاف بیان ہورہے ہیں کہ وہ زمین پر سکون و وقار کے ساتھ ، تواضع، عاجزی، مسکینی اور فروتنی سے چلتے پھرتے ہیں۔ تکبر ، تجبر، فساد اور ظلم وستم نہیں کرتے ، جیسے حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لڑکے سے فرمایا تھا کہ اکڑ کر نہ چلاکر۔ مگر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تصنع اور بناوٹ سے کمر جھکا کر بیماروں کی طرح قدم قدم چلنا، یہ تو ریاکاروں کا کام ہے کہ وہ اپنے آپ کو دکھانے کے لئے اور دنیا کی نگاہیں اپنی طرف اٹھانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت اسکے بالکل برعکس تھی۔ آپ کی چال ایسی تھی کہ گویا آپ کسی اونچائی سے اتر رہے ہیں اور گویا کہ زمین آپ کے لئے لپٹی جارہی ہے۔ سلف صالحین نے بیماروں کی سی تکلف والی چال کو مکروہ فرمایا ہے۔ فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا ہے آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا تو کچھ بیمار ہے؟ اس نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر یہ کیا چال ہے ؟ خبردار جو اب اس طرح چلا تو کوڑے کھائے گا۔ طاقت کے ساتھ جلدی جلدی چلا کرو۔ پس یہاں مراد تسکین اور وقار کے ساتھ شریفانہ چال چلنا ہے نہ کہ ضعیفانہ اور مریضانہ ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جب نماز کے لئے آؤ تو دوڑ کر نہ آؤ بلکہ تسکین کے ساتھ آؤ ۔ جو جماعت کے ساتھ مل جائیں ادا کرلو اور جو فوت ہوجائی پوری کرلو۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں نہایت ہی عمدہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ مومنوں کی آنکھیں اور ان کے کان اور ان کے اعضاء جھکے ہوئے اور رکے ہوئے رہتے ہیں، یہاں تک کہ گنوار اور بےقوف لوگ انہیں بیمار سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ بیمار نہیں ہوتے بلکہ خوف الٰہی سے جھکے جاتے ہیں۔ ویسے پورے تندرست ہیں لیکن دل اللہ کے خوف سے پر ہیں ۔ آخرت کا علم دنیا طلبی سے اور یہاں کے ٹھاٹھ سے انہیں روکے ہوئے ہے۔ یہ قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم کو دور کردیا۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ انہیں دنیا میں کھانے پینے وغیرہ کا غم لگا رہتا تھا ، نہیں نہیں اللہ کی قسم دنیا کا کوئی غم ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتا تھا ۔ ہاں انہیں آخرت کا کھٹکا ہر وقت لگا رہتا تھا جنت کے کسی کام کو وہ بھاری نہیں سمجھتے تھے ہاں جہنم کا خوف انہیں رلاتا رہتا تھا جو شخص اللہ کے خوف دلانے سے بھی خوف نہ کھائے اس کا نفس حسرتوں کا مالک ہے جو شخص کھانے پینے کو ہی اللہ کی نعمت سمجھے وہ کم علم ہے اور عذابوں میں پھنسا ہوا ہے۔ پھر اپنے نیک بندوں کا اور وصف بیان فرمایا کہ جب جاہل لوگ ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی طرح جہالت پر نہیں اترتے بلکہ درگزر کرلیتے ہیں معاف فرمادیتے ہیں اور سوائے بھلی بات کے گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے ۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جوں جوں دوسرا آپ پر تیز ہوتا آپ اتنے ہی نرم ہوتے۔ یہی وصف قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوا ہے آیت (واذاسموا اللغوا اعرضو عنہ) مومن لوگ بیہودہ باتیں سن کر منہ پھیر لیتے ہیں ۔ ایک حسن سند سے مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی شخص نے دوسرے کو برا بھلا کہا لیکن اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تجھ پر سلام ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں کے درمیاں فرشتہ موجود تھا وہ تیری طرف سے گالیاں دینے والے کو جواب دیتا تھا وہ جو گالی تجھے دیتا تھا فرشتہ کہتا تھا یہ نہیں بلکہ تو اور جب تو کہتا تھا تجھ پر سلام تو فرشتہ کہتا تھا اس پر نہیں بلکہ تجھ پر تو ہی سلامتی کو پورا حق دار ہے ۔ پس فرمان ہے کہ یہ اپنی زبان کو گندی نہیں کرتے برا کہنے والوں کو برا نہیں کہتے سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں دوسرا ان پر ظلم کرے یہ صلح اور برداشت کرتے ہیں ۔ اللہ کے بندوں کے ساتھ دن اس طرح گزارتے ہیں کہ ان کی کڑوی کسیلی سن لیتے ہیں رات کو جس حالت میں گزارتے ہیں اس کا بیان اگلی آیت میں ہے۔ فرماتا ہے کہ رات اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں بسر ہوتی ہے بہت کم سوتے ہیں صبح کو استغفار کرتے ہیں کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے امید رحمت ہوتی ہے اور راتوں کی گھڑیوں کو اللہ کی عبادتوں میں گزارتے ہیں۔ دعائیں مانگتے ہیں کہ اے اللہ عذاب جہنم ہم سے دور رکھ وہ تو دائمی اور لازمی عذاب ہے ۔ جیسے شاعر نے اللہ کی شان بتائی ہے کہ شعر(ان یعذیکن غراما وان یعط جزیلا فانہ لایبالی) یعنی اس کے عذاب بھی سخت اور لازمی اور ابدی اور اسکی عطا اور انعام بھی بیحد ان گنت اور بےحساب جو چیز آئے اور ہٹ جائے وہ غرام نہیں۔ غرام وہ ہے جو آنے کے بعد ہٹنے اور دور ہونے کا نام ہی نہ لے۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ عذاب جہنم تاوان ہے جو کافران نعمت سے لیا جائے گا۔ انہوں نے اللہ کے دیئے کو اس کی راہ میں نہیں لگایا لہذا آج اسکا تاوان یہ بھرنا پڑے گا جہنم کو پرُ کردیں۔ وہ بری جگہ ہے بد منظر ہے تکلیف دہ ہے مصیبت ناک ہے ۔ حضرت مالک بن حارث کا بیان ہے کہ جب دوزخی دوزخ میں پھینک دیا جائے گا تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنی مدت تک وہ نیچے ہی نیچے چلاجائے گا اسکے بعد جہنم کے ایک دروازے پر اسے روک دیا جائے گا اور کہا جائے گا تم بہت پیاسے ہو رہے ہو گے لو ایک جام تو نوش کرلو۔ یہ کہہ کر انہیں کالے ناگ اور زہریلے بچھوؤں کے زہر کا ایک پیالہ پلایا جائے گا جس کے پیتے ہی ان کی کھالیں الگ جھڑ جائیں گی بال الگ ہوجائیں گے رگیں الگ جاپڑیں گی ہڈیاں جداجدا ہوجائیں گی ۔ حضرت عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جہنم میں گڑھے ہیں کنویں ہیں ان میں سانپ ہیں جیسے بختی اونٹ اور بچھو ہیں جیسے خچر جب کسی جہنمی کو جہنم میں ڈالا جاتا ہے تو وہ وہاں سے نکل کر آتے اور انہیں لپٹ جاتے ہیں، ہونٹوں پر سروں پر اور جسم کے اور حصوں پر ڈستے اور ڈنک مارتے ہیں جس سے ان کے سارے بدن میں زہر پھیل جاتا ہے اور پھکنے لگتے ہیں سارے سر کی کھال جھلس کر گر پڑتی ہے پھر وہ سانپ چلے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جہنمی ایک ہزار سال تک جہنم میں چلاتا رہے گا یاحنان یامنان تب اللہ تعالٰی حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمائے گا جاؤ دیکھو یہ کیا کہہ رہا ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آکر دیکھیں گے کہ سب جہنمی برے حال سر جھکائے آہ وزاری کررہے ہیں۔ جاکر جناب باری تعالٰی میں خبر کریں گے اللہ تعالٰی فرمائے گا پھر جاؤ فلاں فلاں جگہ یہ شخص ہے جاؤ اور اسے لے آؤ۔ یہ بحکم الٰہی جائیں گے اور اسے لاکر سامنے کھڑا کردیں گے۔ اللہ تعالٰی اس سے دریافت فرمائے گا کہ تو کیسی جگہ ہے ؟یہ جواب دے گا کہ اے اللہ ٹھہرنے کی بھی بری جگہ اور سونے بیٹھے کی بھی بدترین جگہ ہے ۔ اللہ فرمائے گا اچھا اب اسے اس کی جگہ واپس لے جاؤ تو یہ گڑگڑائے گا عرض کرے گا کہ اے میرے ارحم الرحمین اللہ ! جب کہ تو نے مجھے اس سے باہر نکالا تو تیری ذات ایسی نہیں کہ پھر مجھے اسمیں داخل کردے مجھے تو تجھ سے رحم وکرم کی ہی امید ہے۔ اے اللہ بس اب مجھ پر کرم فرما۔ جب تو نے مجھے جہنم سے نکالا تو میں خوش ہوگیا تھا کہ اب تو اس میں نہ ڈالے گا۔ اس مالک ورحمن ورحیم اللہ کو بھی رحم آجائے گا اور فرمائے گا اچھا میرے بندے کو چھوڑ دو۔ پھر ان کا ایک اور وصف بیان ہوتا ہے کہ وہ نہ مسرف ہیں نہ بخیل ہیں نہ بےجا خرچ کرتے ہیں نہ ضروری اخراجات میں کوتاہی کرتے ہیں بلکہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں نہ ہی ایسا کرتے ہیں کہ اپنے والوں کو اہل وعیال کو بھی تنگ رکھیں۔ نہ ایسا کرتے ہیں کہ جو ہو سب لٹادیں۔ اسی کا حکم اللہ تعالٰی نے دیا ہے فرماتا ہے آیت (ولاتجعل یدک مغلولتہ الخ)، یعنی نہ تو اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ اور نہ انہیں بالکل ہی چھوڑ دے۔ مسند احمد میں فرمان رسول ہے کہ اپنی گزران میں میانہ روی کرنا انسان کی سمجھ داری کی دلیل ہے۔ اور حدیث میں ہے جو افراط تفریط سے بچتا ہے وہ کبھی فقیر ومحتاج نہیں ہوتا۔ بزار کی حدیث میں ہے کہ امیری میں فقیری میں عبادت میں درمیانہ روی بڑی ہی بہتر اور احسن چیز ہے۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ کی راہ میں کتنا ہی چاہو دو اس کا نام اسراف نہیں ہے ۔ حضرت ایاس بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جہاں کہیں تو حکم اللہ سے آگے بڑھ جائے وہی اسراف ہے۔ اور بزرگوں کا قول ہے اللہ کی نافرمانی کا خرچ اسراف کہلاتا ہے۔