وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ﴿68﴾
‏ [جالندھری]‏ اور وہ جو خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس جاندار کو مار ڈالنا خدا نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق (یعنی حکم شریعت کے مطابق) اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہو گا ‏
تفسیر ابن كثیر
سب سے بڑا گناہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تیرا اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے۔ اس نے کہا اس سے کم؟ فرمایا تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالنا کہ تو اسے کھلائے گا کہاں سے؟ پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا تیرا اپنے پڑوس کی کسی عورت سے بدکاری کرنا۔ پس اس کی تصدیق میں اللہ تعالٰی نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ یہ حدیث بخاری ومسلم وغیرہ میں موجود ہے۔ اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر جانے لگے تنہا تھے میں بھی ساتھ ہولیا آپ ایک اونچی جگہ بیٹھ گئے میں آپ سے نیچے بیٹھ گیا اور اس تنہائی کے موقعہ کو غنیمت سمجھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ سوالات کئے جو اوپر مذکور ہوئے۔ حجۃ الوداع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار گناہوں سے بچو، اللہ کے ساتھ شرک ، کسی حرمت والے نفس کا قتل، زناکاری اور چوری۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا زنا کی بابت تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا وہ حرام ہے اور وہ قیامت تک حرام ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں سنو! انسان کا اپنی پڑوس کی عورت سے زنا کرنا دوسری دس عورتوں سے زنا سے بھی بدتر ہے۔ پھر آپ نے فرمایا چوری کی نسبت کیا کہتے ہو؟ انہوں نے یہی جواب دیا کہ وہ حرام ہے اللہ اور اس کے رسول اسے حرام قرار دے چکے ہیں ۔ آپ نے فرمایا سنو دس جگہ کی چوری بھی اتنی بری نہیں جیسی پڑوس کی ایک جگہ کی چوری۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ شرک کے بعد اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں کہ انسان اپنا نطفہ اس رحم میں ڈالے جو اس کے لئے حلال نہیں۔ یہ بھی مروی ہے کہ بعض مشرکین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا حضرت آپ کی دعوت اچھی ہے سچی ہے لیکن ہم نے تو شرک بھی کیا ہے قتل بھی کیا ہے، زناکاریاں بھی کی ہیں اور یہ سب کام بکثرت کیے ہیں تو فرمائیے ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ اس پر یہ آیت اتری اور آیت (قل یعبادی الذین اسرفوا) بھی نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمہیں اس سے منع فرماتا ہے کہ تم خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی عبادت کرو اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنے کتے کو تو پالو اور اپنے بچے کو قتل کر ڈالو۔ اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنی پڑوسن سے بدکاری کرو۔ اثام جہنم کی ایک وادی کا نام ہے یہی وہ وادی ہے جن میں زانیوں کو عذاب دیا جائے گا۔ اس کے معنی عذاب وسزا کے بھی آتے ہیں۔ حضرت لقمان حکیم کی نصیحتوں میں ہیں کہ اے بچے زناکاری سے بچنا اس کے شروع میں ڈر خوف ہے اور اس کا انجام ندامت وحسرت ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ غی اور اثام دوزخ کے دو کنوئیں ہیں اللہ ہمیں محفوظ رکھیں۔ اثام کے معنی بدلے کے بھی مروی ہے اور یہی ظاہر آیت کے مشابہ بھی ہے۔ اور گویا اسکے بعد کی آیت اسی بدلے اور سزاکی تفسیر ہے۔ کہ اسے با بار عذاب کیا جائے گا اور سختی کی جائیگی اور ذلت کے دائمی عذابوں میں پھنس جائے گا۔ (اللہم احفظنا) ان کاموں کے کرنے والے کی سزا تو بیان ہوچکی ہے ، مگر اس سزا سے وہ بچ جائیں گے جو دنیا ہی میں توبہ کرلیں اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے جو آیت سورۃ نساء میں ہیں (ومن یقتل مومنا متعمدا الخ) ، وہ اس کے خلاف نہیں گو وہ مدنی آیت ہے لیکن وہ مطلق ہے تو وہ محمول کی جائے گی ان قاتلوں پر جو اپنے اس فعل سے توبہ نہ کریں اور یہ آیت ان قاتلوں کے بارے میں ہے جو توبہ کریں پھر مشرکوں کی بخشش نہ ہونے کا بیان فرمایا ہے اور صحیح احادیث سے بھی قاتل کی توبہ کی مقبولیت ثابت ہے۔ جیسے اس شخص کا قصہ جس نے ایک سو قتل کیے تھے پھر توبہ کی اور اس کی توبہ قبول ہوئی۔ وہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ تعالٰی بھلائیوں سے بدل دیتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے گناہ کے کام کئے تھے اسلام میں آنے کے بعد نیکیاں کیں تو اللہ تعالٰی نے ان گناہ کے کاموں کے بدلے نیکیوں کی توفیق عنایت فرمائی۔ اس آیت کی تلاوت کے وقت آپ ایک عربی شعر پڑتھے تھے جس میں احوال کے تغیر کا بیان ہے جیسے گرمی سے ٹھنڈک۔ عطا بن ابی رباح فرماتے ہیں یہ دنیا کا ذکر ہے کہ انسان کی بری خصلت کو اللہ تعالٰی اپنی مہربانی سے نیک عادت سے بدل دیتا ہے۔ سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ بتوں کی پرستش کے بدلے اللہ تعالٰی کی عبادت کی توفیق انہیں ملی ۔ مومنوں سے لڑنے کے بجائے کافروں سے جہاد کرنے لگے۔ مشرکہ عورتوں سے نکاح کے بجائے مومنہ عورتوں سے نکاح کئے۔ حسن بصری فرماتے ہیں گناہ کے بدلے ثواب کے عمل کرنے لگے۔ شرک کے بدلے توحید واخلاص ملا۔ بدکاری کے بدلے پاکدامنی حاصل ہوئی۔ کفر کے بدلے اسلام ملا۔ ایک معنی تو اس آیت کے یہ ہوئے دوسرے معنی یہ ہیں کہ خلوص کے ساتھ ان کی جو توبہ تھی اس سے خوش ہو کر اللہ عزوجل نے ان کے گناہوں کو نیکوں میں بدل دیا ۔ یہ اس لیے کہ توبہ کے بعد جب کبھی انہیں اپنے گزشتہ گناہ یاد آتے تھے انہیں ندامت ہوتی تھی یہ غمگین ہوجاتے تھے شرمانے لگتے تھے اور استغفار کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے گناہ اطاعت سے بدل گئے گو وہ ان کے نامہ اعمال میں گناہ کے طور پر لکھے ہوئے تھے لیکن قیامت کے دن وہ سب نیکیاں بن جائیں گے جیسے کہ احادیث وآثار میں ثابت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے آخر جہنم سے نکلے گا اور سب سے آخر جنت میں جائے گا یہ ایک وہ شخص ہوگا جسے اللہ کے سامنے لایا جائے گا اللہ تعالٰی فرمائے گا اسکے بڑے بڑے گناہوں کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی نسبت اس سے باز پرس کرو چنانچہ اس سے سوال ہوگا کہ فلاں فلاں دن تو نے فلاں کام کیا تھا ؟ فلاں دن فلاں گناہ کیا تھا ؟ یہ ایک کا بھی انکار نہ کرسکے گا اقرار کرے گا۔ آخر میں کہا جائے گا تجھے ہم نے ہر گناہ کے بدلے نیکی دی اب تو اس کی باچھیں کھل جائیں گی اور کہے گا اے میرے پروردگار میں نے اور بھی بہت سے اعمال کئے تھے جنہیں یہاں پا نہیں رہا۔ یہ فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے کہ آپ کے مسوڑے دیکھے جانے لگے (مسلم) آپ فرماتے ہیں کہ جب انسان سوتا ہے تو فرشتہ شیطان سے کہتا ہے مجھے اپنا صحیفہ جس میں اس کے گناہ لکھے ہوئے ہیں دے وہ دیتا ہے تو ایک نیکی کے بدلے دس دس گناہ وہ اس کے صحیفے سے مٹا دیتا ہے اور انہیں نیکیاں لکھ دیتا ہے پس تم میں سے جو بھی سونے کا ارادہ کریں وہ چونتیس دفعہ اللہ اکبر اور تینتیس دفعہ الحمد للہ اور تینتیس دفعہ سبحان اللہ کہے یہ مل کر سو مرتبہ ہوگئے۔ (ابن ابی دنیا) حضرت سلمان فرماتے ہیں انسان کو قیامت کے دن نامہ اعمال دیا جائے گا وہ پڑھنا شروع کرے گا تو اوپر ہی اس کی برائیاں درج ہونگی جنہیں پڑھ کر یہ کچھ ناامید سا ہونے لگے گا۔ اسی وقت اس کی نظر نیچے کی طرف پڑے گی تو اپنی نیکیاں لکھی ہوئی پائے گا جس سے کچھ ڈھارس بندھے گی ۔ اب دوبارہ اوپر کی طرف دیکھے گا تو گناہوں کی برائیوں کو بھی بھلائیوں سے بدلا ہوا پائے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگ اللہ تعالٰی کے سامنے آئیں گے جن کے پاس بہت کچھ گناہ ہونگے پوچھا گیا کہ وہ کون سے لوگ ہوں گے آپ نے فرمایا کہ وہ جن کی برائیوں کو اللہ تعالٰی بھلائیوں سے بدل دے گا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں جنتی جنت میں چار قسم کے جائیں گے ۔ متقین یعنی پرہیزگاری کرنے والے پھر شاکرین یعنی شکر الٰہی کرنے والے پھر خائفین یعنی خوف الٰہی رکھنے والے پھر اصحاب یمین دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والے۔ پوچھا گیا کہ انہیں اصحاب یمین کیوں کہا جاتا ہے؟ جواب دیا اس لئے کہ انہوں نے نیکیاں بدیاں سب کی تھیں ان کے اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ ملے اپنی بدیوں کا ایک ایک حرف پڑھ کر یہ کہنے لگے کہ اے اللہ ہماری نیکیاں کہاں ہیں ؟ یہاں تو سب بدیاں لکھی ہوئی ہیں اس وقت اللہ تعالٰی ان بدیوں کو مٹا دے گا اور ان کے بدلے نیکیاں لکھ دے گا انہیں پڑھ کر خوش ہو کر اب تو یہ دوسروں سے کہیں گے کہ آؤ ہمارے اعمال نامے دیکھو جنتیوں میں اکثر یہی لوگ ہونگے ۔ امام علی بن حسین زین العابدین فرماتے ہیں برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنا آخرت میں ہوگا۔ مکحول فرماتے ہیں اللہ تعالٰی ان کے گناہوں کو بخشے گا اور انہیں نیکیوں میں بدل دے گا۔ حضرت مکحول نے ایک مرتبہ حدیث بیان کی ایک بہت بوڑھے ضعیف آدمی جن کی بھویں آنکھوں پر آگئی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ایسا شخص ہوں جس نے کوئی غداری کوئی گناہ کوئی بدکاری باقی نہیں چھوڑی ۔ میرے گناہ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اگر تمام انسانوں پر تقسیم ہوجائیں تو سب کے سب غضب الٰہی میں گرفتار ہوجائیں کیا میری بخشش کی بھی کوئی صورت ہے ؟ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم مسلمان ہوجاؤ اس نے کلمہ پڑھ لیا "اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ" تو آپ نے فرمایا اللہ تعالٰی تیری تمام برائیاں، گناہ ، بدکاریاں سب کچھ معاف فرمادے گا بلکہ جب تک تو اس پر قائم رہے گا اللہ تعالٰی تیری برائیاں بھلائیوں میں بدل دے گا۔ اس نے پھر پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے چھوٹے بڑے گناہ سب صاف ہوجائیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں سب کے سب پھر تو وہ شخص خوشی خوشی واپس جانے لگا اور تکبیر وتہلیل پکارتا ہوا لوٹ گیا، رضی اللہ تعالٰی عنہ (ابن جریر) حضرت ابوفروہ رضی اللہ تعالٰی عنہ حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے سارے گناہ کئے ہوں جو جی میں آیا ہو پورا کیا ، کیا ایسے شخص کی توبہ بھی قبول ہوسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا تم مسلمان ہوگئے ہو؟ اس نے کہاجی ہاں آپ نے فرمایا اب نیکیاں کرو برائیوں سے بچو تو اللہ تعالٰی تمہارے گناہ بھی نیکوں میں بدل دے گا اس نے کہا میری غداریاں اور بدکاریاں بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں اب وہ اللہ اکبر کہتا ہوا واپس چلاگیا۔ (طبرانی ) ایک عورت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس آئی اور دریافت فرمایا کہ مجھ سے بدکاری ہوگئی اس سے بچہ ہوگیا میں نے اسے مار ڈالا اب کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اب نہ تیری آنکھیں ٹھنڈی ہوسکتی ہے نہ اللہ کے ہاں تیری بزرگی ہوسکتی ہے تیرے لئے توبہ ہرگز نہیں وہ روتی پیٹتی واپس چلی گئی۔ صبح کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ کر میں نے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تو نے اس سے بہت ہی بری بات کہی کیا تو ان آیتوں کو قرآن میں نہیں پڑھتا آیت (والذین لایدعوں سے الا من تاب) تک ۔ مجھے بڑا ہی رنج ہوا اور میں لوٹ کر اس عورت کے پاس پہنچا۔ اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں وہ خوش ہوگئی اور اسی وقت سجدے میں گر پڑی اور کہنے لگی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرے لئے چھٹکارے کی صورت پیدا کردی (طبرانی) اور روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ کا پہلا فتویٰ سن کر وہ حسرت افسوس کے ساتھ یہ کہتی ہوئی واپس چلی کہ ہائے ہائے یہ اچھی صورت کیا جہنم کے لے بنائی گئی تھی؟ اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی غلطی کا علم ہوا و اس عورت کو ڈھونڈنے کے لئے نکلے تمام مدینہ اور ایک ایک گلی چھان ماری لیکن کہیں پتہ نہ چلا۔ اتفاق سے رات کو وہ عوت پھر آئی تب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں صحیح مسئلہ بتلایا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اس نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے میرے لئے چھٹکارے کی صورت بنائی اور میری توبہ کو قبول فرمایا یہ کہہ کر اس کے ساتھ جو لونڈی تھی اسے آزاد کردیا اس لونڈی کی ایک لڑکی بھی تھی اور سچے دل سے توبہ کر لی ۔ پھر فرماتا ہے اور پنے عام لطف وکرم فضل ورحم کی خبر دیتا ہے کہ جو بھی اللہ کی طرف جھکے اور اپنی سیاہ کاریوں پر نادم ہو کر توبہ کرے اللہ اس کی سنتا ہے قبول فرماتا ہے اور اسے دیتا ہے۔ جیسے ارشاد ہے آیت (ومن یعمل سوءا او یظلم نفسہ الخ)، جو برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر توبہ استغفار کرے وہ اللہ کو غفور ورحیم پائے گا۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت (الم یعملوا اللہ یقبل التوبۃ الخ) کیا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اللہ تعالٰی توبہ کو قبول فرمانے والا ہے۔ آیت (قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم الخ)، میرے ان بندوں سے جو گنہگار ہیں کہہ دیجئے کہ وہ میری رحمت سے نا امید نہ ہوں۔ یعنی توبہ کرنے والا محروم نہیں۔