وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿192﴾
‏ [جالندھری]‏ اور یہ (قرآن خدائے) پروردگار عالم کا اتارا ہوا ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
مبارک کتاب 
سورت کی ابتدا میں قرآن کریم کا ذکر آیا تھا وہی ذکر پھر تفصیلاً بیان ہو رہا ہے کہ یہ مبارک کتاب قرآن کریم اللہ تعالٰی نے اپنے بندے اور نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے۔ روح الامین سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں جن کے واسطے سے یہ وحی سرور رسل علیہ السلام پر اتری ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت (قل من کان عدوا لجبریل) یعنی اس قرآن کو بحکم الٰہی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے تیرے دل پر نازل فرمایا ہے۔ یہ قرآن اگلی تمام الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ یہ فرشتہ ہمارے ہاں ایسا مکرم ہے کہ اس کا دشمن ہمارا دشمن ہے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس سے روح الامین بولے اسے زمین نہیں کھاتی۔ اس بزرگ بامرتبہ فرشتے نے جو فرشتوں کا سردار ہے تیرے دل پر اس پاک اور بہتر کلام اللہ کو نازل فرمایا ہے جو ہر طرح کے میل کچیل سے کمی زیادتی سے نقصان اور کجی سے پاک ہے۔ تاکہ تو اللہ کے مخالفین کو گہنگاروں کو اللہ کی سزا سے بچاؤ کرنے کی رہبری کر سکے۔ اور تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی مغفرت ورضوان کی خوشخبری پہنچاسکے۔ یہ کھلی فصیح عربی زبان میں ہے۔ تاکہ ہر شخص سمجھ سکے پڑھ سکے۔ کسی کا عذر باقی نہ رہے اور ہر ایک پر قرآن کریم اللہ کی حجت بن جائے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے سامنے نہایت فصاحت سے ابر کے اوصاف بیان کئے جسے سن کر صحابہ کہہ اٹھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو کمال درجے کے فصیح وبلیغ زبان بولتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بھلا میری زبان ایسی پاکیزہ کیوں نہ ہوگی، قرآن بھی تو میری زبان میں اترا ہے فرمان ہے آیت (بلسان عربی مبین) امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وحی عربی میں اتری ہے یہ اور بات ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کے لئے ان کی زبان میں ترجمہ کردیا۔ قیامت کے دن سریانی زبان ہوگی ہاں جنتیوں کی زبان عربی ہوگی ( ابن ابی حاتم)