فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِمَّا آتَاكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ ﴿36﴾
‏ [جالندھری]‏ جب (قاصد) سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو جو کچھ خدا نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ تم ہی اپنے تحفے سے خوش ہوتے ہو گے ‏
تفسیر ابن كثیر
بلقیس نے بہت ہی گراں قدر تحفہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجا ۔ سونا موتی جواہر وغیرہ سونے کی کثیر مقدار اینٹیں سونے کے برتن وغیرہ ۔ بعض کے مطابق کچھ بچے عورتوں کے لباس میں اور کچھ عورتیں لڑکوں کے لباس میں بھیجیں اور کہا کہ اگر وہ انہیں پہچان لیں تو اسے نبی مان لینا چاہیے ۔ جب یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے سب کو وضو کرنے کا حکم دیا ۔ لڑکیوں نے برتن سے پانی بہا کر اپنے ہاتھ دھوئے اور لڑکوں نے برتن میں ہی ہاتھ ڈال کر پانی لیا ۔ اس سے آپ نے دونوں کو الگ الگ پہچان کر علیحدہ کر دیا کہ یہ لڑکیاں ہیں اور یہ لڑکے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں اس طرح پہچانا کہ لڑکیوں نے تو پہلے اپنے ہاتھ کیے اندرونی حصہ کو دھویا اور لڑکوں نے انکے برخلاف بیرونی حصے کو پہلے دھویا یہ بھی مروی ہے کہ ان میں سے ایک جماعت نے اس کے برخلاف ہاتھ کی انگلیوں سے شروع کر کے کہنی تک لے گئے۔ ان میں سے کسی میں نفی کا امکان نہیں ، واللہ اعلم۔ یہ بھی مذکور ہے کہ بلقیس نے ایک برتن بھیجا تھا کہا اسے ایسے پانی سے پر کردو جو نہ زمین کا ہو نہ آسمان کا تو آپ نے گھوڑے دوڑائے اور ان کے پسینوں سے وہ برتن بھر دیا۔ اسنے کچھ خرمہرے اور ایک لڑی بھیجی تھی آپ نے انہیں لڑی میں پرو دیا ۔ یہ سب اقوال عموماً بنی اسرائیل کی روایتوں سے لئے جاتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ البتہ بظاہر الفاظ قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس رانی کیے تحفے کی طرف مطلقاً التفات ہی نہیں کیا۔ اور اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ کیا تم مجھے مالی رشوت دے کر شرک پر پاقی رہنا چاہتے ہو ؟ یہ محض ناممکن ہے مجے رب نے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ ملک، مال، لاؤ، لشکر سب میرے پاس موجود ہے۔ تم سے پر طرح بہتر حالت میں میں ہوں فالحمدللہ ۔ تم ہی اپنے اس ہدیے سے خوش رہو یہ کام تم ہی کو سونپاکہ مال سے راضی ہوجاؤ اور تحفہ تمہیں جھکا دے یہاں تو دو ہی چیزیں ہیں یا شرک چھوڑو یا تلوار روکو ۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس سے پہلے کہ اسکے قاصد پہنچیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو حکم دیا اور انہوں نے سونے چاندی کے ایک ہزار محل تیار کردئے۔ جس وقت قاصد پائے تخت میں پہنچے ان محلات کو دیکھ کر ہوش جاتے رہے اور کہنے لگے یہ بادشاہ تو ہمارے اس تحفے کو اپنی حقارت سمجھے گا۔ یہاں تو سونا مٹی کی وقعت بھی نہیں رکھتا ۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ بادشاہوں کو یہ جائز ہے کہ بیرونی لوگوں کے لیے کچھ تکلفات کرے اور قاصدوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرے ۔ پھر آپ نے قاصدوں سے فرمایا کہ یہ ہدیے انہیں کو واپس کردو اور ان سے کہدو مقابلے کی تیاری کرلیں یاد رکھو میں وہ لشکر لے کر چڑھائی کروں گا کہ وہ سامنے آہی نہیں سکتے۔ انہیں ہم سے جنگ کرنے کی طاقت ہی نہیں ۔ ہم انہیں انکی سلطنت سے بیک بینی و دوگوش ذلت و حقارت کے ساتھ نکال دیں گے ان کے تخت و تاج کو رونددیں گے۔ جب قاصد اس تحفے کو واپس لے پہنچے اور شاہی پیغام بھی سنادیا۔ بلقیس کو آپ کی نبوت کا یقین ہو گیا فورا خود بھی اور تمام لشکر اور رعایا مسلمان ہوگئے اور اپنے لشکروں سمیت وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوگئے جب آپ نے اس کا قصد معلوم کیا تو بہت خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔