قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَنْ يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴿38﴾
‏ [جالندھری]‏ (سلیمان) نے کہا کہ اے دربار والو ! کوئی تم میں ایسا ہے کہ قبل اسکے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر ہمارے پاس آئیں ملکہ کا تخت میرے پاس لے آئے ‏
تفسیر ابن كثیر
بلقیس کو دوبارہ پیغام نبوت ملا
جب قاصد پہنچتا ہے اور بلقیس کو دوبارہ پیغام نبوت پہنچاتا ہے تو وہ سمجھ لیتی ہے اور کہتی ہے واللہ یہ سچے پیغمبر ہیں ایک پیغمبر کا مقابلہ کر کے کوئی پنپ نہیں سکتا۔ اسی وقت دوبارہ قاصد بھیجا کہ میں اپنی قوم کے سرداروں سمیت حاضر خدمت ہوتی ہوں تاکہ خود آپ سے مل کر دینی معلومات حاصل کروں اور آپ سے اپنی تشفی کرلوں یہ کہلوا کر یہاں اپنا نائب ایک کو بنایا۔ سلطنت کے انتظامات اس کے سپرد کئے اپنا لاجواب بیش قیمت جڑاؤ تخت جو سونے کا تھا سات محلوں میں مقفل کیا اور اپنے نائب کو اسکی حفاطت کی خاص تاکید کی اور بارہ ہزار سردار جن میں سے ہر ایک کے تحت ہزاروں آدمی تھے۔ اپنے ساتھ لئے اور ملک سلیمان کی طرف چل دی۔ جنات قدم قدم اور دم دم کی خبریں آپ کو پہنچاتے رہتے تھے ۔ جب آپکو معلوم ہوا کہ وہ قریب پہنچ چکی ہے تو آپ نے اپنے دربار میں جس میں جن و انس سب موجود تھے فرمایا کوئی ہے جو اسکے تخت کو اسکے پہنچنے سے پہلے یہاں پہنچا دے ؟ کیونکہ جب وہ یہاں آجائیں گی اور اسلام میں داخل ہوجائیں پھر اس کا مال ہم پر حرام ہوگا۔ یہ سن کر ایک طاقتور سرکش جن جس کا نام کوزن تھا اور جو مثل ایک بڑے پہاڑ کے تھا بول پڑا کہ اگر آپ مجھے حکم دیں تو آپ دربار برخواست کریں اس سے پہلے میں لادیتا ہوں ۔ آپ لوگوں کے فیصلے کرنے اور جھگڑے چکانے اور انصاف دینے کو صبح سے دوپہر تک دربارعام میں تشریف رکھاکرتے تھے۔ اس نے کہا میں اس تخت کے اٹھا لانے کی طاقت رکھتا ہوں اور ہوں بھی امانت دار۔ اس میں کوئی چیز نہیں چراؤں گا: حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا میں چاہتا ہوں اس سے بھی پہلے میرے پاس وہ پہنچ جائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اللہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی تخت کے منگوانے سے عرض یہ تھی کہ اپنے ایک زبردست معجزے کا اور پوری طاقت کا ثبوت بلقیس کو دکھائیں کہ اس کا تخت جسے اس نے سات مقفل مکانوں میں رکھا تھا وہ اس کے آنے سے پہلے دربار سلیمانی میں موجود ہے۔ ( وہ غرض نہ تھی جو اوپر روایت قتادہ میں بیان ہوئی) حضرت سلیمان کے اس جلدی کے تقاضے کو سن کر جس کے پاس کتابی علم تھا وہ بولا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ یہ آصف تھے حضرت سلیمان کے کاتب تھے ان کے باپ کا نام برخیا تھا یہ ولی اللہ تھے اسم اعظم جانتے تھے۔ پکے مسلمان تھے بنو اسرائیل میں سے تھے مجاہد کہتے ہیں ان کا نام اسطوم تھا۔ بلیخ بھی مروی ہے ان کا لقب ذوالنور تھا ۔ عبداللہ لھیعہ کا قول ہے یہ خضر تھے لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنی نگاہ دوڑائیے جہاں تک پہنچے نظر کیجئے ابھی آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ میں اسے لادوں گا۔ پس حضرت سلیمان نے یمن کی طرف جہاں اس کا تخت تھا نظر کی ادھر یہ کھڑے ہو کر وضو کرکے دعا میں مشغول ہوئے اور کہادعا(یا ذالجلال والاکرام یافرمایا یا الھنا والہ کل شی الھا واحدا لا الہ الاانت ائتنی بعرشھا) اسی وقت تخت بلقیس سامنے آگیا۔ اتنی ذرا سی دیر میں یمن سے بیت المقدس میں وہ تخت پہنچ گیا اور لشکر سلیمان کے دیکھتے ہوئے زمین میں سے نکل آیا۔ جب سلیمان علیہ السلام نے اسے اپنے سامنے موجود دیکھ لیا تو فرمایا یہ صرف میرے رب کا فضل ہے کہ وہ مجھے آزمالے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یاناشکری؟ جو شکر کرے وہ اپنا ہی نفع کرتا ہے اور جو ناشکری کرے وہ اپنا نقصان کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی بندوں کی بندگی سے بےنیاز ہے اور خود بندوں سے بھی اس کی عظمت کسی کی محتاجی نہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (من عمل صالحا فلنفسہ الخ)، جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لئے اور جو برائی کرتا ہے وہ اپنے لئے۔ اور جگہ ہے جو نیکی کرتے ہیں وہ اپنے لئے ہی اچھائی جمع کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا تم اور روئے زمین کے سب انسان بھی اگر اللہ سے کفر کرنے لگو تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑوگے۔ وہ غنی ہے اور حیمد ہے صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے اے میرے بندو اگر تمہارے سب اگلے پچھلے انسان جنات بہتر سے بہتر اور نیک بخت سے نیک بخت ہوجائیں تو میرا ملک بڑھ نہیں جائے گا اور اگر سب کے سب بدبخت اور برے بن جائیں تو میرا ملک گھٹ نہیں جائے گایہ تو صرف تمہارے اعمال ہیں جو جمع ہونگے اور تم کو ہی ملیں گے جو بھلائی پائے تو اللہ کا شکر کرے اور جو برائی پائے تو صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے۔