وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ۚ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ ﴿87﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جس روز صور پھونکا جائے گا تو جو لوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سب گھبرا اٹھیں گے مگر وہ جسے خدا چاہے اور سب اس کے پاس عاجز ہو کر چلے آئیں گے ‏
تفسیر ابن كثیر
جب صور پھونکاجائے گا
اللہ تعالٰی قیامت کی گھبراہٹ اور بےچینی کو بیان فرما رہے ہیں۔ صور میں حضرت اسرافیل علیہ السلام بحکم الہی پھونک ماریں گے۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ ہونگے۔ دیر تک نفخہ پھونکتے رہیں گے۔ جس سے سب پریشان حال ہوجائیں گے سوائے شہیدوں کے جو اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں دئیے جاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک دن کسی شخص نے دریافت کیا کہ یہ آپ کیا فرمایا کرتے ہیں کہ اتنے اتنے وقت تک قیامت آجائے گی؟ آپ نے سبحان اللہ یا لا الہ الا اللہ یا اور کوئی ایساہی کلمہ بطور تعجب کہا اور فرمانے لگے سنو! اب تو جی چاہتا ہے کہ کسی سے کوئی حدیث بیان ہی نہ کرو میں نے یہ کہا تھا کہ عنقریب تم بڑی اہم باتیں دیکھو گے۔ بیت اللہ خراب ہوجائے گا اور یہ ہوگا وہ ہوگا وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دجال میری امت میں چالیس ٹھہرے گا۔ میں نہیں جانتاکہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال ۔ پھر اللہ تعالٰی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نازل فرمائے گا۔ وہ صورت شکل میں بالکل حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ تعالی ٰعنہ جیسے ہونگے آپ اسے ڈھونڈ نکالیں گے اور اسے ہلاک کردیں گے ۔ پھر سات سال ایسے گزریں گے کہ دنیا بھر میں دو شخص ایسے نہ ہونگے جن میں آپس میں بغض وعدوات ہو۔ پھر اللہ تعالٰی شام کی طرف سے ایک بھینی بھینی ٹھنڈی ہوا چلائے گا جس سے ہر مومن فوت ہوجائے گا۔ ایک ذرے کے برابر بھی جس کے دل میں خیر یا ایمان ہوگا اس کی روح بھی قبض ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی پہاڑ کی کھوہ میں گھس گیا ہوگا تو یہ ہوا وہیں جاکر اسے فناکردے گی۔ اب زمین پر صرف بد لوگ رہ جائیں گے جو پرندوں جیسے ہلکے اور چوپائیوں جیسے بےعقل ہوں گے۔ ان میں سے بھلائی برائی کی تمیز اٹھ جائے گی ان کے پاس شیطان پہنچے گا اور کہے گا تم شرماتے نہیں؟ کہ بتوں کی پرستش چھوڑے بیٹھے ہو؟ یہ بت پرستی شروع کردیں گے۔ اللہ انہیں روزیاں پہنچاتا رہے گا اور خوش وخرم رکھے گا۔ یہ اسی مستی میں ہونگے جو صور پھونکنے کا حکم مل جائے گا۔ جس کے کان میں آواز پڑی وہیں دائیں بائیں لوٹنے لگا سب سے پہلے اسے وہ شخص سنے گا جو اپنے اونٹ کے لئے حوض ٹھیک ٹھاک کر رہا ہوگا سنتے ہی بےہوش ہوجائے گا۔ اور سب لوگ بےہوش ہونا شروع ہوجائیں گے۔ پھر اللہ تعالٰی مثل شبنم کے بارش برسائے گا جس سے لوگوں کے جسم اٹھنے لگیں گے۔ پھر دوسرا نفخہ پھونکاجائے گا جس سے سب اٹھ کھڑے ہونگے ۔ وہیں آواز لگے گی کہ لوگو! اپنے رب کے پاس چلو ۔ وہاں ٹھہرو تم سے سوال جواب ہوگا پھر فرمایا جائے گا کہ آگ کا حصہ نکالو۔ پوچھاجائے گا کہ کتنوں میں سے کتنے؟ تو فرمایا جائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔ یہ ہوگا وہ دن جو بچوں کو بوڑھا کردے۔ یہ ہوگا وہ دن جب پنڈلی (تجلی رب) کی زیارت کرائی جائے گی۔ پہلا نفخہ تو گھبراہٹ کا نفخہ ہوگا۔ دوسرا بےہوشی اور موت کا اور تیسرا دوبارہ جی کر رب العلمین کے دربار میں پیش ہونے کا ۔ أتوہ کی قرائت الف کے مد کے ساتھ بھی مروی ہے۔ ہر ایک ذلیل وخوار ہو کر پست ولاچار ہو کر بےبس اور مجبور ہوکر ماتحت اور محکوم ہو کر اللہ کے سامنے حاضر ہوگا۔ ایک سے بھی بن نہ پڑے گی کہ اسکی حکم عدولی کرے۔ جیسے فرمان ہے آیت (یوم یدعوکم فتستجیبون بحمدہ) جس دن اللہ تمہیں بلائے گا اور تم اس کی حمد بیان کرتے ہوئے اس کی فرمانبرداری کروگے اور آیت میں ہے کہ پھر جب وہ تمہیں زمین سے بلائے گا تو تم سب نکل کھڑے ہوگے۔ صور کی حدیث میں ہے کہ تمام روحیں صور کے سوراخ میں رکھی جائیں گی اور جب جسم قبروں سے اٹھ رہے ہونگے۔ صورپھونک دیا جائے گا روحیں اڑنے لگیں گی مومنوں کی روحیں نورانی ہونگی کافروں کی روحیں اندھیرے اور ظلمت والی ہونگی۔ رب العالمین خالق کل فرمادے گا میرے جلال کی میری عزت کی قسم ہے ہر روح اپنے بدن میں چلی جائے۔ جس طرح زہر رگ وپے میں سرایت کرتا ہے اس طرح روحیں اپنے جسموں میں پھیل جائیں گی اور لوگ اپنی اپنی جگہ سے سرجھاڑ اٹھ کھڑے ہوں گے جیسے فرمایا کہ اس دن قبروں سے اس طرح جلدی نکلیں گے جس طرح اپنی عبادت گاہ کی طرف دوڑے بھاگے جاتے تھے۔ یہ بلند پہاڑ جنہیں تم گڑا ہوا اور جما ہوا دیکھ رہے ہو یہ اس دن اڑتے بادلوں کی طرح ادھر ادھر پھیلے ہوئے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئے دکھائی دیں گے۔ ریزہ ریزہ ہو کر یہ چلنے پھرنے لگیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہو کر بےنام ونشان ہوجائیں گے زمین صاف ہتھیلی جیسی بغیر کسی اونچ نیچ کے ہوجائے گی یہ ہے صفت اس صناع کی جس کی ہرصفت حکمت والی مضبوط پختہ اور اعلی ہوتی ہے۔ جس کی اعلی تر قدرت انسانی سمجھ میں نہیں آسکتی ۔ بندوں کے تمام اعمال خیر وشر سے وہ واقف ہے ہر ایک فعل کی سزا جزا وہ ضرور دے گا۔ اس اختصار کے بعد تفصیل بیان فرمائی کہ نیکی اخلاص توحید لے کر جو آئے گا وہ ایک کے بدلے دس پائے گا اور اس دن کی گھبراہٹ سے نڈر رہے گا اور لوگ گھبراہٹ میں عذاب میں ہونگے۔ یہ امن میں ثواب میں ہوگا بلند وبالا بالاخانوں میں راحت واطمینان سے ہوگا۔ اور جس کی برائیاں ہی برائیاں ہوں یا جس کی برائیاں بھلائیوں سے زیادہ ہوں اسے ان کا بدلہ ملے گا۔ اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی ۔ اکثر مفسرین سے مروی ہے کہ برائی سے مراد شرک ہے۔