قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ ﴿33﴾
‏ [جالندھری]‏ موسیٰ نے کہا کہ اے پروردگار ان کا ایک شخص میرے ہاتھ سے قتل ہو چکا ہے سو مجھے خوف ہے کہ وہ (کہیں) مجھ کو مار نہ ڈالیں ‏
تفسیر ابن كثیر
یاد ماضی 
یہ گزر چکاکہ حضرت موسیٰ فرعون سے خوف کھاکر اس کے شہر سے بھاگ نکلے تھے۔ جب اللہ تعالٰی نے وہیں اسی کے پاس نبی بن کر جانے کو فرمایا تو آپ کو وہ سب یاد آگیا اور عرض کرنے لگے اے اللہ ان کے ایک آدمی کی جان میرے ہاتھ سے نکل گئی تھی تو ایسانہ ہو کہ وہ بدلے کا نام رکھ کر میرے قتل کے درپے ہوجائیں۔ حضرت موسیٰ نے بچپن کے زمانے میں جب کہ آپ کے سامنے بطور تجربہ کے ایک آگ اور ایک کھجور یا یک موتی رکھا تھا تو آپ نے انگارہ پکڑلیا تھا اور منہ میں ڈال لیا تھا اس واسطے آپ کی زبان میں کچھ کسر رہ گئی تھی اور اسی لیے آپ نے اپنی زبان کی بابت اللہ سے دعا مانگی تھی کہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنادے اس سے میرا بازو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک کر تاکہ نبوت ورسالت کا فریضہ ادا ہو اور تیرے بندوں کو تیری کبریائی کی دعوت دے سکیں۔ یہاں بھی آپ کی دعا منقول ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بھائی ہارون کو میرے ساتھ ہی اپنا رسول بناکر بھیجیں وہ میرا معین و وزیر ہوجائے۔ وہ میری باتوں کو باور کرے تاکہ میرا بازو مضبوط رہے دل بڑھا ہوا رہے۔ اور یہ بھی بات ہے کہ دو آوازیں بہ نسبت ایک آواز کے زیادہ مضبوط اور با اثر ہوتی ہیں۔ میں اکیلا رہا تو ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے جھٹلا نہ دیں اور ہارون ساتھ ہوا تو میری باتیں بھی لوگوں کو سمجھا دیا کرے گا۔ جناب باری ارحم الراحمین نے جواب دیا کہ تیری مانگ منظور ہے ہم تیرے بھائی کو تجھ کو سہارادیں گے اور اسے بھی تیرے ساتھ نبی بنادیں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے (قد اوتیت سولک یاموسیٰ ) موسیٰ تیرا سوال پورا کردیا گیا۔ اور آیت میں ہے ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنادیا ۔ اسی لئے بعض اسلاف کا فرمان ہے کہ کسی بھائی نے اپنے بھائی پر وہ احسان نہیں کیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون پر کیا کہ اللہ سے دعا کرکے انہیں نبی بنوادیا۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی بڑی بزرگی کی دلیل ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کی ایسی دعا بھی رد نہ کی۔ واقعی آپ اللہ کے نزدیک بڑے ہی مرتبہ والے تھے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم تم دونوں کو زبردست دلیلیں اور کام حجتیں دیں گے فرعونی تمہیں کوئی ایذاء نہیں دے سکتے۔ کیونکہ تم میرا پیغام میرے بندوں کے نام پہنچانے والے ہو۔ ایسوں کو میں خود دشمنوں سے سنبھالتا ہوں ۔ ان کامددگار اور مؤید میں خود بن جاتا ہوں ۔ انجام کار تم اور تمہارے ماننے والے ہی غالب آئیں گے۔ جیسے فرمان ہے اللہ لکھ چکا ہے میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے ۔ اللہ تعالٰی قوت والا عزت والا ہے۔ اور آیت میں ہے (ان لننصر رسلنا الخ)، ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں ۔ ابن جریر کے نزدیک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہمارے دئیے ہوئے غلبہ کی وجہ سے فرعونی تمہیں تکلیف نہ پہنچاسکیں گے اور ہماری دی ہوئی نشانیوں کی وجہ سے غلبہ صرف تمہیں ہی حاصل ہوگا۔ لیکن پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہے تو اس کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ واللہ اعلم۔