فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَى ۚ أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ ۖ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ ﴿48﴾
‏ [جالندھری]‏ پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہنے لگے کہ جیسی (نشانیاں) موسیٰ کو ملیں تھیں ویسی اس کو کیوں نہیں ملیں؟ کیا جو (نشانیاں) پہلے موسیٰ کو دی گئی تھیں انہوں نے ان سے کفر نہیں کیا؟ کہنے لگے کہ دونوں جادوگر ہیں ایک دوسرے کے موافق اور بولے کہ ہم سب سے منکر ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
پہلے بیان ہوا کہ اگر نبیوں کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان پر عذاب بھیج دیتے تو ان کی یہ بات رہ جاتی کہ اگر رسول ہمارے پاس آتے تو ہم ضرور ان کی مانتے اس لیے ہم نے رسول بھیجے۔ بالخصوص رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر الزمان رسول بنا کر بھیجا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم انکے پاس پہنچے تو انہوں نے آنکھیں پھیر لیں منہ موڑلیا اور تکبر عناد کیساتھ ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کہنے لگے جیسے حضرت موسیٰ کو بہت معجزات دئے گئے تھے جیسے لکڑی اور ہاتھ طوفان ٹڈیاں جوئیں مینڈک خون اور اناج کی پھلوں کی کمی وغیرہ جن سے دشمنان الٰہی تنگ آئے اور دریاکو چیرنا اور ابر کا سایہ کرنا اور من وسلویٰ کا اتارنا وغیرہ جو زبردست اور بڑے بڑے معجزے تھے انہیں کیوں نہیں دئیے گئے؟ اللہ تعالٰی فرماتا ہے یہ لوگ جس واقعہ کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جس جیسے معجزے طلب کر رہے ہیں یہ خود انہی معجزوں کو کلیم اللہ کے ہاتھ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی کون سا ایمان لائے تھے؟ جو ان کے ایمان کی تمناکرے؟ انہوں نے تو یہ معجزے دیکھ کر صاف کہا تھا یہ دونوں بھائی ہمیں اپنے بڑوں کی تابعداری سے ہٹانا چاہتے ہیں اور اپنی بڑائی ہم سے منوانا چاہتے ہیں ہم تو ہرگز انہیں مان کر نہیں دیں گے دونوں نبیوں کو جھٹلاتے رہے آخر انجام ہلاک کردئیے گئے تو فرمایا کہ ان بڑے جو حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تھے انہوں نے خود موسیٰ کیساتھ کفر کیا اور ان معجزوں کو دیکھ کر صاف کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں بھائی آپس میں متفق ہو کر ہمیں زیر کرنے اور خود بڑا بننے کے لئے آئے ہیں تو ہم تو ان دونوں میں سے کسی کی بھی نہیں ماننے کے۔ یہاں گو ذکر صرف موسیٰ علیہ السلام کا ہے لیکن چونکہ حضرت ہارون انکے ساتھ ایسے گھل مل گئے تھے کہ گویا دونوں ایک تھے تو ایک کے ذکر کے کو دووسرے کے ذکر کے لئے کافی سمجھا ، جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ جب میں کسی جگہ کا ارادہ کرتا ہوں تو میں نہیں جانتا کہ وہاں مجھے نفع ملے گا یا نقصان ہوگا؟ تو یہاں بھی شاعر نے خیر کا لفظ تو کہا مگر شرط کا لفظ بیان نہیں کیونکہ خیر وشر دونوں کی ملازمت مقاربت اور مصاحبت ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہودیوں نے قریش سے کہا کہ تم یہ اعتراض حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کرو انہوں نے کیا اور جواب پاکر خاموش رہے ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں جادوگروں سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کی مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن اس تیسرے قول میں تو بہت ہی بعد ہے اور دوسرے قول سے بھی پہلا قول مضبوط اور عمدہ ہے اور بہت قوی ہے واللہ اعلم۔ یہ مطلب ساحران کی قرأت پر ہے اور جن کی قرأت سحران ہے وہ کہتے ہیں مراد تورات اور انجیل ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب۔ لیکن اس قرأت پر بھی ظاہری تورات و قرآن کے معنی ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی فرمان اللہ ہے کہ تم ہی ان دونوں سے زیادہ ہدایت کوئی کتاب اللہ کے ہاں سے لاؤ جس کی میں تابعداری کروں۔ تورات اور قرآن کو اکثر ایک ہی جگہ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسے فرمایا آیت (قل من انزل الکتاب الذی جاء بہ موسیٰ نورا وھدل للناس) پس یہاں تورات کے نور وہدایت ہونے کا ذکر فرما کر پھر فرمایا آیت (وھذا کتاب انزلناہ مبارک) اور اس کتاب کو بھی ہم نے ہی بابرکت بناکر اتارا ہے۔ اور سورت کے آخر میں فرمایا ثم آیت (اتینا موسیٰ الکتاب) پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور فرمان ہے اس ہماری اتاری ہوئی مبارک کتاب کی تم پیروی کرو اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے جنات کا قول قرآن میں ہے کہ انہوں نے کہا ہم نے وہ کتاب سنی جو موسیٰ کے بعد اتاری گئی ہے جو اپنے سے پہلے کی اور الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے ۔ ورقہ بن نوفل کا مقولہ حدیث کی کتابوں میں مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا یہ وہی اللہ کے راز داں بھی دی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آپ کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ جس شخص نے غائر نظر سے علم دین کا مطالعہ کیا ہے اس پر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ عظمت وشرافت والی عزت وکرامت والی کتاب تو یہی قرآن مجید فرقان حمید ہے جو اللہ تعالٰی حمید و مجید نے اپنے رؤف ورحیم نبی آخر الزمان پر نازل فرمائی اس کے بعد تورات شریف کا درجہ ہے جس میں ہدایت ونور تھا جس کے مطابق انیباء اور انکے ماتحت حکم احکام جاری کرتے رہے۔ انجیل تو صرف توراۃ کو تمام کرنے والی اور بعض حرام کو حلال کرنے والی تھی اس لیے فرمایا کہ ان دونوں کتابوں سے بہتر کتاب اگر تم اللہ کے ہاں سے لاؤ تو میں اس کی تابعداری کرونگا ۔ پھر فرمایا کہ جو آپ کہتے ہیں وہ بھی اگر یہ نہ کریں اور نہ آپ کی تابعداری کریں تو جان لے کہ دراصل انہیں دلیل برہان کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ یہ صرف جھگڑالو ہیں اور خواہش پرست ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خواہش کے پابند لوگوں سے جو اللہ کی ہدایت سے خالی ہوں بڑھ کر کوئی ظالم نہیں۔ اس میں انہماک کرکے جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں وہ آخر تک راہ راست سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہم نے ان کے لیے تفصیلی قول بیان کردیا واضح کردیا صاف کردیا اگلی پچھلی باتیں بیان کردیں قریشوں کے سامنے سب کچھ ظاہر کردیا۔ بعض مراد اس سے رفاعہ لیتے ہیں اور ان کے ساتھ کے اور نو آدمی ۔ یہ رفاعہ حضرت صفیہ بن حی کے ماموں ہیں جنہوں نے تمیمیہ بن وہب کو طلاق دی تھی جن کا دوسرا نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے ہوا تھا۔