الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُونَ ﴿52﴾
‏ [جالندھری]‏ جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
اہل کتاب علماء
اہل کتاب کے علماء درحقیقت اللہ کے دوست تھے ان کے پاکیزہ اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ قرآن کو مانتے ہیں جیسے فرمان ہے جنہیں ہم نے کتاب دی ہے اور وہ سمجھ بوجھ کر پڑھتے ہیں ان کا تو اس قرآن پر ایمان ہے۔ اور آیت میں ہے کہ بعض اہل کتاب ایسے بھی ہیں جو اللہ کو مان کر تمہاری طرف نازل شدہ کتاب اور اپنی طرف اتری ہوئی کتاب کو بھی مانتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جگہ ہے پہلے کے اہل کتاب ایسے بھی ہیں کہ ہمارے اس قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں اور زبان سے کہتے ہیں کہ دعا(سبحان ربنا ان کان وعد ربنا لمفعولا) اور آیت میں ہے (ولتجدن اقربھم مودۃ للذین امنوا الذین قالوا انانصاری الخ)، یعنی مسلمانوں کے ساتھ دوستی کے اعتبار سے سب لوگوں سے قریب تر انہیں پاؤ گے جو اپنے تئیں انصاری کہتے ہیں اس لیے کہ ان میں علماء اور مشائخ تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجاشی حبشہ کے بھیجے ہوئے آئے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورۃ یاسین سنائی جسے سن کر یہ رونے لگے اور مسلمان ہوگئے۔ انہی کے بارے میں یہ آیتیں اتریں کہ یہ انہیں سنتے ہی اپنے موحد مخلص ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور قبول کرکے مومن مسلم بن جاتے ہیں۔ ان کی ان صفتوں پر اللہ بھی انہیں دوہرا اجر دیتا ہے ایک پہلی کتاب کو ماننے کا دوسرا قرآن کو تسلیم کرنے وتعمیل کا۔ یہ اتباع حق پر ثابت قدمی کرتے ہیں جو دراصل ایک مشکل اور اہم کام ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملتا ہے اہل کتاب جو اپنے نبی کو مان کر پھر مجھ پر بھی ایمان لائے۔ غلام مملوک جو اپنے مجازی آقا کی فرماں برداری کے ساتھ اللہ تعالٰی کے حق کی ادائیگی بھی کرتا رہے اور وہ شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو جسے وہ ادب وعلم سکھائے پھر آزاد کرے اور اس سے نکاح کرلے۔ قاسم بن ابو امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں فتح مکہ والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کیساتھ ہی اور بالکل پاس ہی تھا۔ آپ نے بہت بہترین باتیں ارشاد فرمائیں جن میں یہ بھی فرمایا کہ یہود ونصاری میں جو مسلمان ہوجائے اسے دوہرا دوہرا اجر ہے اور اس کے عام مسلمانوں کے برابر حقوق ہیں۔ پھر ان کے نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں۔ کہ یہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں۔ درگزر کردیتے ہیں۔ اور نیک سلوک ہی کرتے ہیں اور اپنی حلال روزیاں اللہ کے نام خرچ کرتے ہیں اپنے بال بچوں کا پیٹ بھی پالتے ہیں زکوۃ صدقات وخیرات میں بھی بخیلی نہیں کرتے ۔ لغویات سے بچے ہوئے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے دوستیاں نہیں کرتے ایسی مجلسوں سے دور رہتے ہیں بلکہ اگر اچانک گزر ہو بھی جائے تو بزرگانہ طور پر ہٹ جاتے ہیں ایسوں سے میل جول الفت محبت نہیں کرتے صاف کہہ دیتے ہیں کہ تمہاری کرنی تمہارے ساتھ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ۔ یعنی جاہلوں کی سخت کلامی برداشت کرلیتے ہیں انہیں ایسا جواب نہیں دیتے کہ وہ اور بھڑکیں بلکہ چشم پوشی کرلیتے ہیں اور کترا کر نکل جاتے ہیں۔ چونکہ خود پاک نفس ہیں اس لئے پاکیزہ کلام ہی منہ سے نکالتے ہیں۔ کہہ دیتے ہیں کہ تم پر سلام ہو، ہم نہ جاہلانہ روش پر چلیں نہ جہلات کی چال کو پسند کریں۔ امام محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ حبشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تقریبا بیس نصرانی آئے۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے یہیں یہ بھی بیٹھ گئے اور بات چیت شروع کی اس وقت قریشی اپنی اپنی بیٹھکوں میں کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تے ۔ ان عیسائی علماء نے جب سوالات کرلئے اور جوابات سے ان کی تشفی ہوگئی تو آپ نے دین اسلام ان کے سامنے پیش کیا اور قرآن کریم کی تلاوت کرکے انہیں سنائی ۔ چونکہ یہ لوگ پڑھے لکھے سنجیدہ اور روشن دماغ تھے قرآن نے ان کے دلوں پر اثر کیا اور ان کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ انہوں نے فورا دین اسلام قبول کرلیا اور اللہ پر اور اللہ کے رسول پر ایمان لائے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفتیں انہوں نے اپنی آسمانی کتابوں میں پڑھی تھیں سب آپ میں موجود پائیں۔ جب یہ لوگ آپ کے پاس جانے لگے تو ابوجہل بن ہشام ملعون اپنے آدمیوں کو لئے ہوئے انہیں راستے میں ملا اور تمام قریشیوں نے مل کر انہیں طعنے دینے شروع کئے اور برا کہنے لگے کہ تم سے بدترین وفد کسی قوم کا ہم نے نہیں دیکھا تمہاری قوم نے تمہیں اس شخص کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا یہاں تم نے آبائی مذہب کو چھوڑ دیا اور اس کا ایسا رنگ تم پر چڑھا کہ ذراسی دیر میں اپنے دین کو ترک کرکے دین بدلدیا اور اسی کا کلمہ پڑھنے لگے تم سے زیادہ احمق ہم نے کسی کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ سب سن لیا اور جواب دیا کہ ہم تمہارے ساتھ جاہلانہ باتیں کرنا پسند نہیں کرتے ہمارا دین ہمارے ساتھ تمہارا مذہب تمہارے ساتھ۔ ہم نے جس بات میں اپنی بھلائی دیکھی اسے قبول کرلیا۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ وفد نجران کے نصرانیوں کا تھا واللہ اعلم۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیتیں انہی کے بارے میں اتری ہیں۔ حضرت زہری سے ان آیتوں کا شان نزول پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں تو اپنے علماء سے یہی سنتا چلا آیا ہوں کہ یہ آیتیں نجاشی اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہیں۔ اور سورۃ مائدہ کی آیتیں (ذالک بان منھم قسیسن ورھبانا سے مع الشاہدین) تک کی آیتیں بھی انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔