وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ ﴿62﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جس روز خدا انکو پکارے گا اور کہے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کا تم کو دعوی تھا؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
کہاں ہیں تمہارے بت
مشرکوں کو قیامت کے دن پکار کر سامنے کھڑا کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا کہ دنیا میں جنہیں تم میرے سوا پوجتے رہے جن بتوں اور پتھروں کو مانتے رہے ہو وہ کہاں ہیں؟ انہیں پکارو اور دیکھو کہ وہ تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں؟ یا وہ خود اپنی کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ یہ صرف بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہوگا۔ جیسے فرمان ہے آیت (ولقد جئتمونا فرادی کما خلقنکم اول مرۃ الخ)، یعنی ہم تمہیں ویسے ہی تن تنہا اور ایک ایک کرکے لائیں گے جیسے ہم نے اول دفعہ پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں یاد دلایا تھا وہ سب تم اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے۔ ہم تو آج تمہارے ساتھ کسی سفارشی کو بھی نہیں دیکھتے جنہیں تم شریک الٰہی ٹھیرائے ہوئے تھے۔ تم میں ان میں کوئی لگاؤ نہیں رہا اور تمہارے گمان کردہ شریک سب آج تم سے کھوئے ہوئے ہیں۔ جن پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی یعنی شیاطین اور سرکش لوگ اور کفر کے بانی اور شرک کی طرف لوگوں کو بلانے والے یہ سب بڑے بڑے لوگ اس دن کہیں گے کہ اے اللہ ہم نے انہیں گمراہ کیا اور انہوں نے ہماری کفریہ باتیں سنیں اور مانیں جیسے ہم بہکے ہوئے تھے انہیں بھی بہکایا۔ ہم ان کی عبادت سے تیرے سامنے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے (واتخذوا من دون اللہ الھۃ الخ)، انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے تاکہ وہ ان کے لئے باعث عزت بنیں لیکن ایسا نہیں ہونے کا یہ تو انکی عبادت سے بھی انکار کر جائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے۔ اور آیت میں ہے (ومن اضل ممن یدعو من دون اللہ الخ)، اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتا ہے جو قیامت کی گھڑی تک انہیں جواب نہ دے سکیں اور وہ ان کی پکار سے بھی غافل ہوں اور قیامت کے دن لوگوں کے حشر کے موقعہ پر ان کے دشمن بن جائیں اور اس بات سے صاف انکار کردیں کہ انہوں نے انکی عبادت کی تھی۔ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ تم نے جن بتوں کی پوجا پاٹ شروع کر رکھی ہے ان سے صرف دنیاکی ہی دوستی ہے قیامت کے دن تو تم سب ایک دوسرے کے منکر ہوجاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجوگے ۔ اور آیت میں ہے (اذتبر الذین اتبعوا من الذین اتبعوا الخ)، یعنی جو تابعداری کرنے والے تھے اور وہ ان کی پرجوش کی تابعداری کرتے رہے مگر یہ ان سے بری اور بیزار ہوجائیں گے یعنی عذابوں کو سامنے دیکھتے ہوئے سب تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔ ان سے فرمایا جائے گا کہ دنیا میں جنہیں پوجتے رہے ہو آج انہیں کیوں نہیں پکارتے؟ اب یہ پکاریں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے اور انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہ آگ کے عذاب میں جائیں گے اس وقت آرزو کریں گے کہ کاش ہم راہ یافتہ ہوتے ؟ جیسے ارشاد ہے کہ آیت (ویوم یقول نادوا شرکای الذی زعمتم الخ)، جس دن فرمائے گا کہ میرے ان شریکوں کو آواز دو جنہیں تم بہت کچھ سمجھ رہے تھے یہ پکاریں گے لیکن وہ جواب نہ دیں گے اور ہم ان کے اور ان کے درمیان آڑ کریں گے مجرم لوگ دوزخ کو دیکھیں گے پھر باور کرائیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں لیکن اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے اسی قیامت والے دن ان سب کو سنا کر ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ تم نے میرے انبیاء کو کیا جواب دیا؟ اور کہاں تک ان کا ساتھ دیا؟ پہلے توحید کے متعلق بازپرس تھی اب رسالت کے متعلق سوال جواب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح قبر میں بھی سوال ہوتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے؟ مومن جواب دیتا ہے کہ میرا معبود صرف اللہ تعالٰی ہی ہے اور میرے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے (سلام علیہ) ہاں کافر سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا وہ گھبراہٹ اور پریشانی سے کہتا ہے مجھے اسکی کوئی خبر نہیں۔ اندھا بہرا ہو جاتا ہے جیسے فرمایاآیت ( من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی واضل سبیلا) جو شخص یہاں اندھا ہے وہ وہاں بھی اندھا اور راہ بھولا رہے گا۔ تمام دلیلیں ان کی نگاہوں سے ہٹ جائیں گی رشتے ناتے حسب نسب کی کوئی قدر نہ ہوگی نسب ناموں کا کوئی سوال نہ ہوگا۔ ہاں دنیا میں توبہ کرنے والے ایمان اور نیکی کے ساتھ زندگی گزارنے والے تو بیشک فلاح اور نجات حاصل کرلیں گے یہاں عسی یقین کے معنی میں ہے یعنی مومن ضرور کامیاب ہونگے۔