وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿68﴾
‏ [جالندھری]‏ اور تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) برگزیدہ کر لیتا ہے انکو اس کا اختیار نہیں ہے یہ جو شرک کرتے ہیں خدا اس سے پاک و بالاتر ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
ٖصفات الٰہی
ساری مخلوق کا خالق تمام اختیارات والا اللہ ہی ہے ۔ نہ اس میں کوئی اس سے جھگڑنے والا نہ اس کا شریک وساتھی۔ جو چاہے پیدا کرے جسے چاہے اپنا خاص بندہ بنالے۔ جو چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا ہو نہیں سکتا۔ تمام امور سب خیرو شر اسی کے ہاتھ ہے۔ سب کی باز گشت اسی کی جانب ہے کسی کو کوئی اختیار نہیں۔ یہی لفظ اسی معنی میں آیت (ماکان لھم الخیرۃ من امرھم) میں ہے دنوں جگہ ما نافیہ ہے۔ گو ابن جریر نے یہ کہا کہ ما معنی میں الذی کے ہے یعنی اللہ پسند کرتا ہے اسے جس میں بھلائی ہو اور اس معنی کو لے کر معتزلیوں نے مراعات صالحین پر استدلال کیا ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہاں مانفی کے معنی میں ہے جیسے کہ حضرت ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے۔ یہ آیت اسی بیان میں ہے کہ مخلوق کی پیدائش میں تقدیر کے مقرر کرنے میں اختیار رکھنے میں اللہ ہی اکیلا ہے اور نظیر سے پاک ہے۔ اسی لیے آیت کے خاتمہ پر فرمایا کہ جب بتوں وغیرہ کو وہ شریک الٰہی ٹھہرا رہے ہیں جو نہ کسی چیز کو بناسکیں نہ کسی طرح اختیار رکھیں اللہ ان سب سے پاک اور بہت دور ہے۔ پھر فرمایا سینوں اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں بھی اللہ جانتا ہے اور وہ سب بھی اس پر اسی طرح ظاہر ہیں جس طرح کھلم کھلا اور ظاہر باتیں۔ پوشیدہ بات کہو یا اعلان سے کہو وہ سب کا عالم ہے رات میں اور دن میں جو ہو رہا ہے اس پر پوشیدہ نہیں۔ الوہیت میں بھی وہ یکتا ہے مخلوق میں کوئی ایسا نہیں جو اپنی حاجتیں اس کی طرف لے جائے۔ جس سے مخلوق عاجزی کرے ، جو مخلوق کاملجا وماوٰی ہو، جو عبادت کے لائق ہو۔ خالق مختار رب مالک وہی ہے۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے سب لائق تعریف ہے اسکا عدل وحکمت اسی کے ساتھ ہے۔ اس کے احکام کو کوئی رد نہیں کرسکتا اس کے ارادوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ غلبہ حکمت رحمت اسی کی ذات پاک میں ہے۔ تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے وہ سب کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اس پر تمہارے کاموں میں سے کوئی کام چھپا ہوا نہیں۔ نیکوں کو جزا بدوں کو سزا وہ اس روز دے گا اور اپنی مخلوق میں فیصلے فرمائیں گا۔