تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴿83﴾
‏ [جالندھری]‏ وہ (جو) آخرت کا گھر (ہے) ہم نے اسے ان لوگوں کے لئے (تیار) کر رکھا ہے جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارادہ نہیں کرتے اور انجام (نیک) تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
جنت اور آخرت 
فرماتا ہے کہ جنت اور آخرت کی نعمت صرف انہی کو ملے گی جن کے دل خوف الٰہی سے بھرے ہوئے ہوں اور دنیا کی زندگی تواضع فروتنی عاجزی اور اخلاق کے ساتھ گزاردیں۔ کسی پر اپنے آپ کو اونچا اور بڑا نہ سمجھیں ادھر ادھر فساد نہ پھیلائیں سرکشی اور برائی نہ کریں۔ کسی کا مال ناحق نہ ماریں اللہ کی زمین پر اللہ کی نافرمانیاں نہ کریں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ جسے یہ بات اچھی لگے کہ اس کی جوتی کا تسمہ اپنے ساتھی کی جوتی کے تسمے سے اچھا ہو تو وہ بھی اسی آیت میں داخل ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ فخر غرور کرے ۔ اگر صرف بطور زیبائش کے چاہتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ !میری تو یہ چاہت ہے کہ میری چادر بھی اچھی ہو میری جوتی بھی اچھی ہو تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں یہ تو خوبصورتی ہے اللہ تعالٰی جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے ۔ پھر فرمایا جو ہمارے پاس نیکی لائے گا وہ بہت سی نیکیوں کا ثواب پائے گا۔ یہ مقام فضل ہے اور برائی کا بدلہ صرف اسی کے مطابق سزا ہے۔ یہ مقام عدل ہے اور آیت میں ہے (من جاء بالسیئتہ فکبت وجوھھم فی النار الخ)، جو برائی لے کر آئے گا وہ اندھے منہ آگ میں جائے گا۔ تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے۔