فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنْجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿24﴾
‏ [جالندھری]‏ تو انکی قوم کے لوگ جواب میں بولے تو یہ بولے کہ اسے مار ڈالو یا جلا دو مگر خدا نے ان کو آگ (کی سوزش) سے بچا لیا جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
عقلی اور نقلی دلائل
حضرت ابراہیم کا یہ عقلی اور نقلی دلائل کا وعظ بھی ان لوگوں کے دلوں پر اثر نہ کرسکا اور انہوں نے یہاں بھی اپنی اس شقاوت کا مظاہرہ کیا جواب تو دلیلوں کا دے نہیں سکتے تھے لہذا اپنی قوت سے حق کو دبانے لگے اور اپنی طاقت سے سچ کو روکنے لگے کہنے لگے ایک گڑھا کھودو اس میں آگ بھڑکاؤ اور اس آگ میں اسے ڈال دو کہ جل جائے۔ لیکن اللہ نے ان کے اس مکر کو انہی پر لوٹا دیا مدتوں تک لکڑیاں جمع کرتے رہیں اور ایک گڑھا کھود کر اس کے اردگرد احاطے کی دیواریں کھڑی کرکے لکڑیوں میں آگ لگادی جب اس کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے اور اتنی زور کی آگ روشن ہوئی کہ زمین پر کہیں اتنی آگ نہیں دیکھی گئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پکڑ کر باندھ کر منجنیق میں ڈال کر جھلاکر اس آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ نے اسے اپنے خلیل علیہ السلام پر باغ وبہار بنادیا آپ کئی دن کے بعد صحیح سلامت اس میں سے نکل آئے۔ یہ اور اس جیسی قربانیاں تھیں جن کے باعث آپ کو امامت کا منصب عطا ہوا ۔ اپنا نفس آپ نے رحمان کے لئے اپنا جسم آپ نے میزان کے لئے اپنی اولاد آپ نے قربان کے لئے اپنا مال آپ نے فیضان کے لئے کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیاکے کل ادیان والے آپ سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ نے آگ کو آپ کے لئے باغ بنادیا اس واقعہ میں ایمانداروں کے لئے قدرت الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ جن بتوں کو تم نے معبود بنا رکھاہے یہ تمہارا ایکا اور اتفاق دنیا تک ہی ہے ۔ مودۃ زبر کے ساتھ مفعول لہ ہے۔ ایک قرأت میں پیش کے ساتھ بھی ہے یعنی تمہاری یہ بت پرستی تمہاری لئے گو دنیا کی محبت حاصل کرادے۔ لیکن قیامت کے دن معاملہ برعکس ہوجائے گا مودۃ کی جگہ نفرت اور اتفاق کے بدلے اختلاف ہوجائے گا۔ ایک دوسرے سے جھگڑوگے ایک دوسرے پر الزام رکھوگے ایک دوسرے پرلعنتیں بھیجوگے۔ ہر گروہ دوسرے گروپ پر پھٹکار برسائے گا۔ سب دوست دشمن بن جائیں گے ہاں پرہیزگار نیک کار آج بھی ایک دوسرے کے خیر خواہ اور دوست رہیں گے۔ کفار سب کے سب میدان قیامت کی ٹھوکریں کھا کھا کر بالآخر جہنم میں جائیں گے ۔ گو اتنابھی نہ ہوگا کہ ان کی کسی طرح مدد کرسکے۔ حدیث میں ہے تمام اگلے پچھلوں کو اللہ تعالٰی ایک میدان میں جمع کرے گا۔ کون جان سکتا ہے کہ دونوں سمت میں کس طرف ؟ حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالٰی عنہا جو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ہمشیرہ ہیں جواب دیا کہ اللہ اور اس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ علم والا ہے۔ پھر ایک منادی عرش تلے سے آواز دے گا کہ اے موحدو! بت توحید والے اپنا سر اٹھائیں گے پھر یہی آواز لگائے گا پھر سہ بارہ یہی پکارے گا اور کہے اللہ تعالٰی نے تمہاری تمام لغزشوں سے درگزر فرمالیا۔ اب لوگ کھڑے ہونگے اور آپ کی ناچاقیوں اور لین دین کا مطالبہ کرنے لگیں گے تو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف سے آواز دی جائے گی کہ اے اہل توحید تم تو آپس میں ایک دوسرے کو معاف کردو تمہیں اللہ بدل دے گا۔