وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ ۚ فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَمِنْ هَؤُلَاءِ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الْكَافِرُونَ ﴿47﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اسی طرح ہم نے تمہاری طرف کتاب اتاری ہے تو جن لوگوں کو ہم نے کتابیں دی تھیں وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور بعض ان (مشرک) لوگوں میں سے بھی اس پر ایمان لے آتے ہیں اور ہماری آیتوں سے وہی انکار کرتے ہیں جو کافر (ازلی) ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
حق تلاوت 
فرمان ہے کہ جیسے ہم نے اگلے انبیاء پر اپنی کتابیں نازل فرمائی تھیں اسی طرح یہ کتاب یعنی قرآن شریف ہم نے اے ہمارے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر نازل فرمایا ہے۔ پس اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ہماری کتاب کی قدر کی اور اس کی تلاوت کا حق ادا کیا وہ جہاں اپنی کتابوں پر ایمان لائے اس پاک کتاب کو بھی مانتے ہیں جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ، اور جیسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ۔ اور ان لوگوں یعنی قریش وغیرہ میں سے بھی بعض لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں ہاں جو لوگ باطل سے حق کو چھپانے والے اور سورج کی روشنی سے آنکھیں بند کرنے والے ہیں وہ تو اسکے بھی منکر ہیں۔ پھر فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان میں مدت العمرتک رہ چکے ہو اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ ان میں گزار چکے ہو انہیں خوب معلوم ہے کہ آپ پڑھے لکھے نہیں، ساری قوم اور سارا ملک بخوبی علم رکھتا ہے کہ آپ محض امی ہیں نہ لکھناجانتے ہیں نہ پڑھنا ۔ پھر آج جو آپ کو انوکھی فصیح وبلیغ اور پر از حکمت کتاب پڑھتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ آپ اس حالت میں ایک حرف پڑھے ہوئے نہیں خود تصنیف وتالیف کر نہیں سکتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت اگلی کتابوں میں تھی جیسے قرآن ناقل ہے آیت (الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل الخ)، یعنی جو لوگ پیروی کرتے ہیں اس رسول ونبی امی کی جس کی صفات وہ اپنی کتاب توراۃ اور انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہیں جو انہیں نیکیوں کا حکم کرتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے ۔ لطف یہ ہے کہ اللہ کے معصوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمشہ لکھنے سے دور ہی رکھے گئے ۔ ایک سطر کے معنی ، ایک حرف بھی لکھنا آپ کو نہ آتا تھا ۔ آپ نے کاتب مقرر کرلئے تھے جو وحی اللہ کو لکھ لیتے تھے اور ضروت کے وقت شاہان دنیا سے خط وکتابت بھی وہی کرتے تھے پچھلے فقہاء میں قاضی ابوالولید باجی وغیرہ نے کہا کہ حدیبیہ والے دن خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے یہ جملہ صلح نامے میں لکھا تھا کہ ھذا ماقاضی علیہ محمدا بن عبداللہ یعنی یہ وہ شرائط ہیں جن پر محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا ۔ لیکن یہ قول درست نہیں یہ وہم قاضی صاحب کو بخاری شریف کی اس روایت سے ہوا ہے جس میں یہ الفاظ ہیں کہ ثم اخذ فکتب یعنی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ لیکر لکھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے لکھنے کا حکم دیا۔ جیسے دوسری روایت میں صاف موجود ہے کہ ثم امر فکتب یعنی آپ نے پھر حکم دیا اور لکھاگیا۔ مشرق ومغرب کے تمام علماء کا یہی مذہب ہے بلکہ باجی وغیرہ پر انہوں نے اس قول کا بہت سخت رد کیا ہے اور اس سے بیزاری ظاہر کی ہے۔ اور اس قول کی تردید اپنے اشعار اور خطبوں میں بھی کی ہے۔ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ قاضی صاحب وغیرہ کا یہ خیال ہرگز نہیں کہ آپ اچھی طرح لکھنا جانتے تھے بلکہ وہ یہ کہتے تھے کہ آپ کا یہ جملہ صلح نامے پر لکھا جانا معجزہ تھا۔ جیساکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا اور ایک روایت میں ہے کہ ک ف ر لکھا ہوا ہوگا جسے ہر مومن پڑھ لے گا اگرچہ ان پڑھ ہو تب بھی اسے پڑھ لے گا۔ یہ مومن کی ایک کرامت ہوگی اسی طرح یہ فقرہ لکھ لینا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ لکھنا جانتے تھے۔ یا آپ نے سیکھا تھا ۔ بعض لوگ ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہ ہوا جب تک کہ آپ نے لکھنا نہ سیکھ لیا۔ یہ روایت بالکل ضعیف ہے بلکہ محض بے اصل ہے قرآن کریم کی اس آیت کو دیکھئے کس قدر تاکید کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھا ہونے کا انکار کرتی ہے اور کتنی سختی کے ساتھ پرزور الفاظ میں اس کا بھی انکار کرتی ہے کہ آپ لکھناجانتے ہوں۔ یہ جو فرمایا کہ داہنے ہاتھ سے یہ باعتبار غالب کے کہدیا ہے ورنہ لکھا تو دائیں ہاتھ سے ہی جاتا ہے اسی کی طرح آیت (ولاطائر یطیر بجناحیہ) میں ہے کیونکہ ہر پرند اپنے پروں سے ہی اڑتا ہے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پڑھ ہونا بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو یہ باطل پرست آپ کی نسبت شکر کرنے کی گنجائش پاتے کہ سابقہ انبیاء کی کتابوں سے پڑھ لکھ کر نقل کرلیتا ہے لیکن یہاں تو ایسانہیں۔ تعجب ہے کہ باوجود ایسانہ ہونے کے پھر بھی یہ لوگ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ گزرے ہوئے لوگوں کی کہانیاں ہیں جنہیں اس نے لکھ لیاہے۔ وہی اس کے سامنے صبح شام پڑھی جاتی ہیں۔ باوجودیکہ خود جانتے ہیں کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے نہیں۔ ان کے اس قول کے جواب میں جناب باری عز اسمہ نے فرمایا انہیں جواب دو کہ اسے اس اللہ نے نازل فرمایا ہے جو زمین وآسمان کی پوشیدگیوں کو جانتا ہے۔ یہاں فرمایا بلکہ یہ روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں۔ خود آیات واضح صاف اور سلجھے ہوئے الفاظ میں ہیں۔ پھر علماء پر ان کا سمجھنا یاد کرنا پہنچانا سب آسان ہے جیسے فرمان ہے آیت (ولقد یسرنا القران للذکر فھل من مدکر) یعنی ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے بالکل آسان کردیا ہے پس کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہرنبی کو ایسی چیز دی گئی جس کے باعث لوگ ان پر ایمان لائے مجھے ایسی چیز وحی اللہ دی گئی ہے جو اللہ نے میری طرف نازل فرمائی ہے تو مجھے ذات اللہ سے امید ہے کہ تمام نبیوں کے تابعداروں سے زیادہ میرے تابعدار ہونگے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ اے نبی !میں تمہیں آزماؤنگا اور تمہاری وجہ سے لوگوں کی بھی آزمائش کرلونگا۔ میں تم پر ایسی کتاب نازل فرماؤنگا جسے پانی دھو نہ سکے۔ تو اسے سوتے جاگتے پڑھتا رہے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے حروف پانی سے دھوئے جائیں لیکن وہ ضائع ہونے سے محفوظ ہے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے اگر قرآن کسی چمڑے میں ہو تو اسے آگ نہیں جلائے گی۔ اس لئے کہ وہ سینوں میں محفوظ ہے ، زبانوں پر آسان ہے اور دلوں میں موجود ہے۔ اور اپنے لفظ اور معنی کے اعتبار سے ایک جیتا جاگتا معجزہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ کتابوں میں اس امت کی ایک صفت یہ بھی مروی ہے کہ اناجیلھم فی صدورھم ان کی کتاب ان کے سینوں میں ہوگی۔ امام ابن جریر اسے پسند فرماتے ہیں کہ معنی یہ ہیں بلکہ اس کا علم کہ تو اس کتاب سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتا تھا یہ آیات بینات اہل کتاب کے ذی علم لوگوں کے سینوں میں موجودہیں۔ قتادۃ اور ابن جریج سے بھی یہی منقول ہے اور پہلا قول حسن بصری کاہے اور یہی بہ روایت عوفی ابن عباس سے منقول ہے اور یہ ضحاک نے کہا ہے اور یہی زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ ہماری آیتوں کا جھٹلانا قبول نہ کرنا یہ حد سے گذرجانے والوں اور ضدی لوگوں کاہی کام ہے جو حق ناحق کو سمجھتے ہیں اور نہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے اگرچہ ان کے پاس نشانیاں آجائیں۔ یہاں تک کہ وہ المناک عذاب کا مشاہدہ کرلیں۔