وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ ﴿61﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ اور سورج اور چاند کو کس نے (تمہارے) زیر فرمان کیا؟ تو کہہ دیں گے خدا نے، تو پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
توحید ربویت توحید الوہیت
اللہ تعالٰی ثابت کرتا ہے کہ معبود برحق صرف وہی ہے۔ خود مشرکین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ آسمان وزمین کا پیدا کرنے والا سورج کو مسخر کرنے والا دن رات کو پے درپے لانے والا خالق رازق موت وحیات پر قادر صرف اللہ تعالٰی ہی ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ غنا کے لائق کون ہے اور فقر کے لائق کون ہے؟ اپنے بندوں کی مصلحتیں اس کو پوری طرح معلوم ہیں۔ پس جبکہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ تمام چیزوں کا خالق صرف اللہ تعالٰی ہے سب پر قابض صرف وہی ہے پھر اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ اور اس کے سوا دوسروں پر توکل کیوں کرتے ہیں؟ جبکہ ملک کا مالک وہ تنہا ہے تو عبادتوں کے لائق بھی وہ اکیلا ہے۔ توحید ربوبیت کو مان کر پھر توحید الوہیت سے انحراف عجیب چیز ہے قرآن کریم میں توحید ربوبیت کے ساتھ ہی توحید الوہیت کا ذکر بکثرت سے اس لئے ہے کہ توحید ربویت کے قائل مشرکین مکہ تو تھے ہی انہیں قائل معقول کرکے پھر توحید الوہیت کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ مشرکین حج وعمرے میں لبیک پکارتے ہوئے بھی اللہ کے لاشریک ہونے کا اقرار کرتے تھے لبیک لاشریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وماملک یعنی یا اللہ ہم حاضر ہوئے تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک کہ جن کا مالک اور جن کے ملک کا مالک بھی توہی ہے۔