وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ ﴿26﴾
‏ [جالندھری]‏ اور آسمانوں اور زمین میں (جتنے فرشتے اور انسان وغیرہ ہیں) اسی کے (مملوک) ہیں (اور) تمام اس کے فرمانبردار ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
جس کا کوئی ہمسر نہیں
فرماتا ہے کہ تمام آسمانوں اور ساری زمینوں کی مخلوق اللہ ہی کی ہے سب اس کے لونڈی غلام ہیں سب اسی کی ملکیت ہیں۔ ہر ایک اس کے سامنے عاجز ولاچار مجبور وبے بس ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں قنوت کا ذکر ہے وہاں مراد اطاعت وفرمانبردای ہے۔ ابتدائی پیدائش بھی اسی نے کی اور وہی اعادہ بھی کرے گا اور اعادہ بہ نسبت ابتدا کے عادتا آسان اور ہلکا ہوتا ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جناب باری تعالٰی کا ارشاد ہے کہ مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے اور اسے یہ چاہیے نہیں تھا ۔ وہ مجھے برا کہتا ہے اور یہ بھی اسے لائق نہ تھا۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ کہتا ہے جس طرح اس نے مجھے اولا پیدا کیا اس طرح دوبارہ پیدا کر نہیں سکتا حالانکہ دوسری مرتبہ کی پیدائش پہلی دفعہ کی پیدائش سے بالکل آسان ہوا کرتی ہے اس کا مجھے برا کہنا یہ ہے کہ کہتا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں احد اور صمد ہوں۔ جس کی نہ اولاد نہ ماں باپ اور جس کا کوئی ہمسر نہیں۔ الغرض دونوں پیدائشیں اس مالک کی قدر کی مظہر ہیں نہ اس پر کوئی کام بھاری نہ بوجھل ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ھو کی ضمیر کا مرجع خلق ہو مثل سے مراد یہاں اس کی توحید الوہیت اور توحید ربوبیت ہے نہ کہ مثال اس لیے کہ اللہ تعالٰی کی ذات مثال سے پاک ہے فرمان ہے آیت (لیس کمثلہ شئی) اس کی مثال کوئی اور نہیں۔ بعض اہل ذوق نے کہا ہے کہ جب صاف شفاف پانی کا ستھرا پاک صاف حوض ٹھہرا ہوا ہو اور باد صبا کے تھپیڑے اسے ہلاتے جلاتے نہ ہوں اس وقت اس میں آسمان صاف نظر آتا ہے سورج اور چاند ستارے بالکل دکھائی دیتے ہیں اسی طرح بزرگوں کے دل ہیں جن میں وہ اللہ کی عظمت وجلال کو ہمیشہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ وہ غالب ہے جس پر کسی کا بس نہیں نہ اس کے سامنے کسی کی کچھ چل سکے ہرچیز اس کی ماتحتی میں اور اس کے سامنے پست ولاچار عاجز وبے بس ہے۔ اس کی قدرت سطوت سلطنت ہرچیز محیط ہے ۔ وہ حکیم ہے اپنے اقوال ، افعال، شریعت، تقدیر، غرض ہر ہر امر میں۔ حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں مثل اعلی سے مراد لا الہ الا اللہ ہے۔