ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ ۖ هَلْ لَكُمْ مِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنْتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ ۚ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿28﴾
‏ [جالندھری]‏ وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ بھلا جن (لونڈی غلاموں) کے تم مالک ہو وہ اس (مال) میں جو ہم نے تم کو عطا فرمایا ہے تمہارے شریک ہیں؟ اور کیا تم اس میں (ان کو اپنے) برابر (مالک سمجھتے) ہو؟ (اور کیا) تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو؟ اسی طرح ہم عقل والوں کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
اپنے دلوں میں جھانکو!
مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کو شریک اللہ جانتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے کہ یہ سب اللہ کے غلام اور اس کے ماتحت ہیں۔ چنانچہ وہ حج وعمرے کے موقعہ پر لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھے کہ دعا(لبیک لاشریک لک الا شریکا ھولک تملکہ وماملک) یعنی ہم تیرے دربار میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ وہ خود اور جس چیز کا وہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں ہے۔ یعنی ہمارے شریکوں کا اور ان کی ملکیت کا تو ہی اصلی مالک ہے۔ پس یہاں انہیں ایک ایسی مثال سے سمجھایا جارہاہے جو خود یہ اپنے نفس ہی میں پائیں۔ اور بہت اچھی طرح غور وخوض کرسکیں۔ فرماتا ہے کہ کیا تم میں سے کوئی بھی اس امر پر رضامند ہوگا کہ اس کے کل مال وغیرہ میں اس کے غلام اس کے برابر کے شریک ہوں اور ہر وقت اسے یہ دھڑ کا رہتا ہو کہ کہیں وہ تقسیم کرکے میری جائیداد اور ملکیت آدھوں آدھ بانٹ نہ لے جائیں۔ پس جس طرح تم یہ بات اپنے لئے پسند نہیں کرتے اللہ کے لئے بھی نہ چاہو جس طرح غلام آقا کی ہمسری نہیں کرسکتا اسی طرح اللہ کا کوئی بندہ اللہ کا شریک نہیں ہوسکتا۔ یہ عجب نا انصافی ہے کہ اپنے لئے جس بات سے چڑیں اور نفرت کریں اللہ کے لئے وہی بات ثابت کرنے بیٹھ جائیں۔ خود بیٹیوں سے جلتے تھے اتناسنتے ہی کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی ہے منہ کالے پڑجاتے تھے اور اللہ کے مقرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے ۔ اسی طرح خود اس بات کے کبھی رودار نہیں ہونے کہ اپنے غلاموں کو اپنا برابر کا شریک و سہیم سمجھیں لیکن اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک سمجھ رہے ہیں کس قدر انصاف کا خونی ہے؟ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ مشرک جو لبیک پکارتے تھے اور اس پر یہ آیت اتری۔ اور اس میں بیان ہے کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر کا شریک ٹھہرانے سے عار رکھتے ہو تو اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک کیوں ٹھہرا رہے ہو۔ یہ صاف بات بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ہم اسی طرح تفصیل وار دلائل غافلوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں پھر فرماتا ہے اور بتلاتا ہے کہ مشرکین کے شرک کی کوئی سند عقلی نقلی کوئی دلیل نہیں صرف کرشمہ جہالت اور پیروی خواہش ہے۔ جبکہ یہ راہ راست سے ہٹ گئے تو پھر انہیں اللہ کے سوا اور کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا۔ یہ گو دوسروں کا اپنا کارساز اور مددگار مانتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ دشمنان اللہ کا دوست کوئی نہیں ۔ کون ہے جو اس کی مرضی کے خلاف لب ہلا سکے۔ کون ہے جو اس پر مہربانی کرے جس پر اللہ نامہربان ہو؟ جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے ہو نہیں سکتا۔