وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُمْ مِنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ ﴿33﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار کو پکارتے اور اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں پھر جب وہ انکو اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے تو ایک فرقہ ان میں سے اپنے پروردگار سے شرک کرنے لگتا ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
انسان کی مختلف حالتیں
اللہ تعالٰی لوگوں کی حالت بیان فرما رہے ہے کہ دکھ درد مصیبت وتکلیف کے وقت تو وہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کو بڑی عاجزی زاری نہایت توجہ اور پوری دلسوزی کے ساتھ پکارتے ہیں اور جب اس کی نعمتیں ان پر برسنے لگتی ہے تو یہ اللہ کیساتھ شرک کرنے لگتے ہیں۔ لیکفروا میں لام بعض تو کہتے ہیں لام عاقبت ہے اور بعض کہتے ہیں لام تعلیل ہے۔ لیکن لام تعلیل ہونا اس وجہ سے بھلا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کے لئے یہ مقرر کیا پھر انہیں دھمکایا کہ تم ابھی معلوم کرلوگے۔ بعض بزرگوں کا فرمان ہے کہ کوتوال یاسپاہی اگر کسی کو ڈرائیے دھمکائے تو وہ کانپ اٹھتا ہے تعجب ہے کہ اس کے دھمکانے سے ہم دہشت میں آئیں جس کے قبضے میں ہرچیز ہے اور جس کا صرف یہ کہدینا ہر امر کے لئے کافی ہے۔ کہ ہوجا پھر مشرکین کا محض بےدلیل ہونا بیان فرمایا جارہاہے کہ ہم نے ان کے شرک کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ پھر انسان کی ایک بیہودہ خصلت بطور انکار بیان ہو رہی ہے کہ سوائے چند ہستیوں کے عموما حالت یہ ہے کہ راحتوں کے وقت پھول جاتے ہیں اور سختیوں کے وقت مایوس ہوجاتے ہیں۔ گویا اب کوئی بہتری ملے گی نہیں۔ ہاں مومن سختیوں میں صبر اور نرمیوں میں نیکیاں کرتے ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے مومن پر تعجب ہے اس کے لئے اللہ کی ہر قضا بہتر ہی ہوتی ہے۔ راحت پر شکر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے بہتر ہوتا ہے اور مصیبت پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے بہتر ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی ہی متصرف اور مالک ہے ۔ وہ اپنی حکمت کے مطابق جہان کا نظام چلارہاہے کسی کو کم دیتا ہے کسی کو زیادہ دیتا ہے۔ کوئی تنگی ترشی میں ہے کوئی وسعت اور فراخی میں۔ اس میں مومنوں کے لئے نشان ہیں۔