ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿41﴾
‏ [جالندھری]‏ خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ خدا انکو انکے بعض عملوں کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں ‏
تفسیر ابن كثیر
زمین کی اصلاح اللہ تعالٰی کی اطاعت میں مضمر ہے
ممکن ہے بر یعنی خشکی سے مراد میدان اور جنگل ہوں اور بحریعنی تری سے مراد شہر اور دیہات ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بر کہتے ہیں خشکی کو اور بحر کہتے ہیں تری کو خشکی کے فساد سے مراد بارش کا نہ ہونا پیداوار کا نہ ہونا قحط سالیوں کا آنا۔ تری کے فساد سے مراد بارش کا رک جانا جس سے پانی کے جانور اندھے ہوجاتے ہیں۔ انسان کا قتل اور کشتیوں کا جبر چھین جھپٹ لینا یہ خشکی تری کا فساد ہے۔ بحر سے مراد جزیرے اور بر سے مراد شہر اور بستیاں ہیں۔ لیکن اول قول زیادہ ظاہر ہے اور اسی کی تائید محمد بن اسحاق کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضور نے ایلہ کے بادشاہ سے صلح کی اور اس کا بحریعنی شہر اسی کے نام کردیا پھلوں کا اناج کا نقصان دراصل انسان کے گناہوں کی وجہ سے ہے اللہ کے نافرمان زمین کے بگاڑنے والے ہیں۔ آسمان وزمین کی اصلاح اللہ کی عبادت واطاعت سے ہے۔ ابوداؤد میں حدیث ہے کہ زمین پر ایک حد کا قائم ہونا زمین والوں کے حق میں چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ یہ اس لیے کہ حد قائم ہونے سے مجرم گناہوں سے باز رہیں گے۔ اور جب گناہ نہ ہونگے تو آسمانی اور زمینی برکتیں لوگوں کو حاصل ہونگی۔ چنانچہ آخر زمانے میں جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور اس پاک شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے مثلا خنزیر کا قتل صلیب کی شکست جزئیے کا ترک یعنی اسلام کی قبولیت یا جنگ پھر جب آپ کے زمانے میں دجال اور اس کے مرید ہلاک ہوجائیں گے یاجوج ماجوج تباہ ہوجائیں گے تو زمین سے کہا جائیے گا کہ اپنی برکتیں لوٹادے اس دن ایک انار لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہوگا اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے چھلکے تلے یہ سب لوگ سایہ حاصل کرلیں۔ ایک اونٹنی کا دودھ ایک پورے قبیلے کو کفایت کرے گا۔ یہ ساری برکتیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے جاری کرنے کی وجہ سے ہونگی جیسے جیسے عدل وانصاف مطابق شرع شریف بڑھے گا ویسے ویسے خیر وبرکت بڑھتی چلی جائے گی۔ اس کے برخلاف فاجر شخص کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ اس کے مرنے پر بندے شہر درخت اور جانور سب راحت پالیتے ہیں۔ مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ زیاد کے زمانے میں ایک تھیلی پائی گئی جس میں کجھور کی بڑی گھٹلی جیسے گہیوں کے دانے تھے اور اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ اس زمانے میں اگتے تھے جس میں عدل وانصاف کو کام میں لایا جاتا تھا ۔ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ فساد سے شرک ہے لیکن یہ قول تامل طلب ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ مال اور پیداوار کی اور پھر اناج کی کمی بطور آزمائش کے اور بطور ان کے بعض اعمال کے بدلے کے ہے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (وبلوناھم بالحسنات والسیات لعلھم یرجعون)۔ ہم نے انہیں بھلائیوں برائیوں میں مبتلاکیا تاکہ وہ لوٹ جائیں۔ تم زمین میں چل پھر کر آپ ہی دیکھ لو کہ تم سے پہلے جو مشرک تھے اس کے نتیجے کیا ہوئے؟ رسولوں کی نہ ماننے اللہ کیساتھ کفر کرنے کا کیا وبال ان پر آیا؟ یہ دیکھو اور عبرت حاصل کرو۔