وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿46﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ خوشخبری دیتی ہیں تاکہ تم کو اپنی رحمت کے مزے چکھائے اور تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کے فضل سے (روزی) طلب کرو اور عجب نہیں تم شکر کرو ‏
تفسیر ابن كثیر
مسلمان بھائی کی اعانت پر جہنم سے نجات کا وعدہ
بارش کے آنے سے پہلے بھینی بھینی ہواؤں کا چلنا اور لوگوں کو بارش کی امید دلانا۔ اس کے بعد مینہ برسانا تاکہ بستیاں آباد ہیں اور جاندار زندہ رہیں سمندروں اور دریاؤں میں جہاز اور کشتیاں چلیں۔ کیونکہ کشتیوں کا چلنا بھی ہوا پر موقوف ہے۔ اب تم اپنی تجارت اور کمائی دھندے کے لئے ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر جاسکو۔ پس تمہیں چاہئے کہ اللہ تعالٰی کی ان بیشمار ان گنت تعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرو۔ پھر اپنے نبی کو تسکین اور تسلی دینے کے لئے فرماتا ہے کہ اگر آپ کو لوگ جھٹلاتے ہیں تو آپ اسے کوئی انوکھی بات نہ سمجھیں۔ آپ سے پہلے کے رسولوں کو بھی ان کی امتوں نے ایسے ہی ٹیڑھے ترچھے فقرے سنائے ہیں۔ وہ بھی صاف روشن اور واضح دلیلیں معجزے اور احکام لائے تھے بالآخر جھٹلانے والے عذاب کے شنکجے میں کس دئیے گئے اور مومنوں کو اس وقت ہر قسم کی برائی سے نجات ملی۔ اپنے فضل سے اللہ تعالٰی جل شانہ نے اپنے نفس کریم پر یہ بات لازم کر لی ہے کہ وہ اپنے با ایمان بندوں کو مدد دے گا۔ جیسے فرمان ہے آیت (کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ)۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی آبرو بچالے اللہ پر حق ہے کہ وہ اس سے جہنم کی آگ کو ہٹالے۔ پھر آپ نے پڑھا آیت (وکان حقا علینا نصرالمومنین)۔