وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ﴿6﴾
‏ [جالندھری]‏ اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بےہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ (لوگوں کو) بےسمجھے خدا کے راستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزا کرے یہی لوگ ہیں جن کو ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا ‏
تفسیر ابن كثیر
لہو و لعب موسیقی اور لغو باتیں
اوپر بیان ہوا تھا نیک بختوں کا جو کتاب اللہ سے ہدایت پاتے تھے اور اسے سن کر نفع اٹھاتے تھے۔ تو یہاں بیان ہو رہا ہے ان بدبختوں کا جو کلام الٰہی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے باجے گاجے ڈھول تاشے سنتے ہیں چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ آپ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے تین دفعہ قسم کھاکر فرمایا کہ اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں۔ یہی قول حضرت ابن عباس ، جابر، عکرمہ، سعید بن جیبر، مجاہد مکحول، عمرو بن شعیب ، علی بن بذیمہ کاہے۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے۔ حضرت قتادۃ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے۔ انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے چنانچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے غریب کہا ہے اور اس کے ایک راوی علی بن زید کو ضعیف کہا ہے ۔ میں کہتا ہوں خود علی ان کے استاد اور ان کے تمام شاگرد ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم ۔ ضحاک کا قول ہے کہ مراد اس سے شرک ہے امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر وہ کلام جو اللہ سے اور اتباع شرع سے روکے وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔ اس سے غرض اس کی اسلام اور اہل اسلام کی مخالفت ہوتی ہے۔ ایک قرأت میں لیضل ہے تو لام لام عاقبت ہوگا یالام عیل ہوگا۔ یعنی امرتقدیری ان کی اس کارگذاری سے ہو کر رہے گا۔ ایسے لوگ اللہ کی راہ کو ہنسی بنالیتے ہیں ۔ آیات اللہ کو بھی مذاق میں اڑاتے ہیں ۔ اب ان کا انجام بھی سن لو کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی راہ کی کتاب اللہ کی اہانت کی قیامت کے دن ان کی اہانت ہوگی اور خطرناک عذاب میں ذلیل ورسوا ہونگے۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ یہ نانصیب جو کھیل تماشوں باجوں گاجوں پر راگ راگنیوں پر ریجھا ہوا ہے۔ یہ قرآن کی آیتوں سے بھاگتا ہے کان ان سے بہرے کرلیتا ہے یہ اسے اچھی نہیں معلوم ہوتیں۔ سن بھی لیتا ہے تو بےسنی کردیتا ہے ۔ بلکہ انکا سننا اسے ناگوار گذرتا ہے کوئی مزہ نہیں آتا۔ وہ اسے فضول کام قرار دیتا ہے چونکہ اس کی کوئی اہمیت اور عزت اس کے دل میں نہیں اس لئے وہ ان سے کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتا وہ تو ان سے محض بےپرواہ ہے۔ یہ یہاں اللہ کی آیتوں سے اکتاتا ہے توقیامت کے دن عذاب بھی وہ ہونگے کہ اکتا اکتا اٹھے۔ یہاں آیات قرانی سن کر اسے دکھ ہوتا ہے وہاں دکھ دینے والے عذاب اسے بھگتنے پڑیں گے۔