وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿12﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی کہ خدا کا شکر کرو اور جو شخص شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو خدا بھی بےپروا اور سزاوار حمد (وثنا) ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
حضرت لقمان نبی تھے یا نہیں؟ 
اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ حضرت لقمانبی تھے یا نہ تھے؟ اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے پرہیزگار ولی اللہ اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ آپ حبشی غلام تھے اور بڑھئی تھے۔ حضرت جابر سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت لقمان پستہ قد اونچی ناک والے موٹے ہونٹ والے نبی تھے۔ سعد بن مسیب فرماتے ہیں آپ مصر کے رہنے والے حبشی تھے۔ آپ کو حکمت عطا ہوئی تھی لیکن نبوت نہیں ملی تھی آپ نے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ غلام حبشی سے فرمایا اپنی رنگت کی وجہ سے اپنے تئیں حقیر نہ سمجھ تین شخص جو تمام لوگوں سے اچھے تھے تینوں سیاہ رنگ تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ جو حضور رسالت پناہ کے غلام تھے۔ حضرت مجع جو جناب فاروق اعظم کے غلام تھے اور حضرت لقمان حکیم جو حبشہ کے نوبہ تھے۔ حضرت خالد ربعی کا قول ہے کہ حضرت لقمان جو حبشی غلام بڑھی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ۔ وہ دل اور زبان لے گئے کچھ دنوں بعد ان کے مالک نے کہاکہ بکری ذبح کرو اور دو بدترین گوشت کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین مانگے تو بھی یہی لائے گئے اور بدترین مانگے گئے تو بھی یہی لائے گئے یہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سبب سے بد تر بھی یہی ہیں۔ حضرت مجاہد کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے نیک بندے تھے۔ سیاہ فام غلام تھے موٹے ہونٹوں والے اور بھرے قدموں والے اور بزرگ سے بھی یہ مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں قاضی تھے۔ ایک اور قول ہے کہ آپ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں تھے۔ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک چروا ہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کیا تو وہی نہیں ہے جر میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چرایاکرتا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں اس نے کہا پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا؟ فرمایا سچ بولنے اور بےکار کلام نہ کرنے سے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کا فضل اور امانت ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بےنفع کاموں کو چھوڑ دینا۔ الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے۔ بعض روایتیں اور بھی ہیں جن میں گو صراحت نہیں کہ آپ نبی نہ تھے لیکن ان میں بھی آپ کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ نبی نہ تھے کیونکہ غلامی نبوت کے منافی ہے۔ انبیاء کرام عالی نسب اور عالی خاندان کے ہواکرتے تھے۔ اسی لئے جمہور سلف کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے۔ ہاں حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ آپ نبی تھے لیکن یہ بھی جب کے سند صحیح ثابت ہوجائے لیکن اسکی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم ۔ کہتے ہیں کہ حضرت لقمان حکیم سے ایک شخص نے کہا کیا تو بنی حسحاس کا غلام نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔ اس نے کہا تو بکریوں کا چرواہا نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔ کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں؟ آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا یہی کہ پھر وہ کیا ہے ؟ کہ تیری مجلس پر رہتی ہے ؟ لوگ تیرے دروازے پر آتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا سنو بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کرلو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤگے۔ آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو۔ زبان بیہودہ باتوں سے روک لو۔ مال حلال کھایاکرو۔ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو۔ زبان سے سچ بات بولا کرو۔ وعدے کو پورا کیا کرو۔ مہمان کی عزت کرو۔ پڑوسی کا خیال رکھو۔ بےفائدہ کاموں کو چھوڑ دو۔ انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے۔ ابوداؤد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں حضرت لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں۔ وہ خوش اخلاق خاموش غوروفکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے لغو کاموں سے دور رہتے ہنستے نہ تھے جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس دن ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے۔ وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لئے جاتے تھے کہ غوروفکر اور عبرت ونصیحت حاصل کریں۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی۔ حضرت قتادۃ سے ایک عجیب اثر وارد ہے کہ حضرت لقمان کو حکمت ونبوت کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے حکمت قبول فرمائی راتوں رات ان پُر حکمت برسادی گئی اور رگ وپے میں حکمت بھر دی گئی ۔ صبح کو ان کی سب باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں۔ آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی ؟ تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنادیتا تو اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھاجاتا۔ لیکن جب مجھے اختیار دیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہار سکوں۔ اس لئے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا۔ اس روایت کے ایک راوی سعید بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے واللہ اعلم۔ حضرت قتادہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مراد حکمت سے اسلام کی سمجھ ہے ۔ حضرت لقمان نہ نبی تھے نہ ان پر وحی آئی تھی پس سمجھ علم اور عبرت مراد ہے۔ ہم نے انہیں اپنا شکر بجالانے کا حکم فرمایا تھا کہ میں نے تجھے جو علم وعقل دی ہے اور دوسروں پر جو بزرگی عطا فرمائی ہے۔ اس پر تو میری شکر گزاری کر۔ شکر گذار کچھ مجھ پر احسان نہیں کرتا وہ اپناہی بھلاکرتا ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے (ومن عمل صالحا فلانفسھم یمھدون) نیکی والے اپنے لئے بھی بھلا توشہ تیار کرتے ہیں۔ یہاں فرمان ہے کہ اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ کو اسکی ناشکری ضرر نہیں پہنچاسکتی وہ اپنے بندوں سے بےپرواہ ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ سب سے بےنیاز ہے ساری زمین والے بھی اگر کافر ہوجائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ سب سے غنی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہم اس کے سواکسی اور کی عبادت نہیں کرتے۔