يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ ﴿33﴾
‏ [جالندھری]‏ لوگوں اپنے پروردگار سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آ سکے بیشک خدا کا وعدہ سچا ہے پس دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب دینے والا (شیطان) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ تعالٰی کے روبرو کیا ہوگا
اللہ تعالٰی لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرا رہا ہے اور اپنے تقوے کا حکم فرما رہا ہے ۔ ارشاد ہے اس دن باپ اپنے بچے کو یا بچہ اپنے باپ کو کچھ کام نہ آئے گا ایک دوسرے کا فدیہ نہ ہوسکے گا۔ تم دنیا پر اعتماد کرنے والو آخرت کو فراموش نہ کر جاؤ شیطان کے فریب میں نہ آجاؤ وہ تو صرف پردہ کی آڑ میں شکار کھیلنا جانتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عزیر علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی تکلیف ملاحظہ کی اور غم ورنج بہت بڑھ گیا نیند اچاٹ ہوگئی تو اپنے رب کی طرف جھکے۔ فرماتے ہیں میں نے نہایت تضرع وزاری کی ، خوب رویا گڑگڑایا نمازیں پڑھیں روزے رکھے دعائیں مانگیں۔ ایک مرتبہ رو رو کر تضرع کر رہا تھا کہ میرے سامنے ایک فرشتہ آگیا میں نے اس سے پوچھا کیا نیک لوگ بروں کی شفاعت کریں گے؟ یاباپ بیٹوں کے کام آئیں گے ؟ اس نے فرمایا کہ قیامت کا دن جھگڑوں کے فیصلوں کا دن ہے اس دن اللہ خود سامنے ہوگا کوئی بغیر اس کی اجازت کے لب نہ ہلاسکے گا کسی کو دوسرے کے بدلے نہ پکڑا جائے گا نہ باپ بیٹے کے بدلے نہ بیٹا باپ کے بدلے نہ بھائی بھائی کے بدلے نہ غلام آقا کے بدلے نہ کوئی کسی کا غم ورنج کرے گا نہ کسی کی طرف سے کسی کو خیال ہوگا نہ کسی پر رحم کرے گا نہ کسی کو کسی سے شفقت ومحبت ہوگی۔ نہ ایک دوسرے کی طرف پکڑا جائے گا ۔ ہر شخص نفسانفسی میں ہوگا ہر ایک اپنی فکر میں ہوگا ہر ایک کو اپنا رونا پڑا ہوگا ہر ایک اپنابوجھ اٹھائے ہوئے ہوگا کسی اور کا نہیں۔